حضرت لوط علیہ السّلام، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے اور ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل لیکن پھر حضرت لوط کی قوم کب اور کیسے لڑکوں سے بدفعلی کی طرف راغب ہوئی ؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

حضرت لوط علیہ السّلام، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے اور ان پر سب سے ...
حضرت لوط علیہ السّلام، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے اور ان پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل لیکن پھر حضرت لوط کی قوم کب اور کیسے لڑکوں سے بدفعلی کی طرف راغب ہوئی ؟ وہ بات جو شاید آپ کو معلوم نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ویب ڈیسک) حضرت لوط علیہ السّلام کے والد کا نام ہاران تھا، جو تارخ(آزر) کے بیٹے اور حضرت ابراہیمؑ کے سگے بھائی تھے۔ یعنی حضرت لوط علیہ السّلام، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے تھے۔آپؑ، حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں۔نیز، آپؑ، حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہی کے زمانے میں اہلِ سدوم کی رہنمائی کے لیے نبوّت کے منصب پر فائز ہوئے۔ والد، ہاران کے انتقال کے بعد حضرت لوط ؑ اپنے چچا، حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ بابل میں مقیم رہے اور پھر ایک عرصے بعد سدوم نامی شہر میں آباد ہو گئے۔

جیونیوز کیلئے محمود میاں نجمی نے لکھا کہ "جب کوئی قوم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شُکر ادا کرنے کی بجائے غرور و تکبّر اور عاداتِ بد میں مبتلا ہو جائے، تو ایسے لوگوں کے دِل و دماغ پر شیطان قابض ہو جاتا ہے اور پھر یہ ابلیس کے نقشِ قدم پر چلنے لگتے ہیں۔ ایک دن بستی کے لوگ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے طریقۂ کار پر غور و خوض کر رہے تھے کہ ابلیس ایک بزرگ کی شکل میں اُن کی محفل میں آیا اور کہا’’ اگر تم ان سے پیچھا چُھڑانا چاہتے ہو، تو میرے کہنے پر عمل کرو۔‘‘ اجنبی بزرگ کی یہ بات سب نے نہایت توجّہ سے سُنی اور طریقہ بتانے پر اصرار کیا۔ ابلیس نے کہا کہ’’ کل بتائوں گا۔‘‘ دوسرے دن وہ ایک خُوب صُورت، نوعُمر لڑکے کے بھیس میں آیا اور اُنہیں اپنی عورتوں کی بجائے مَردوں کے ساتھ فعلِ بد کرنا سِکھایا۔اس طرح ابلیس کے کہنے پر اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے۔ اُنہوں نے شیطان کی ایما پر ایک ایسا گناہ ایجاد کیا، جس کا اولادِ آدمؑ میں اِس سے پہلے کسی کو خیال تک نہیں آیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السّلام کو نبی بنا کر اُس قوم کی اصلاح کے لیے بھیجا۔

حضرت لوطؑ نے اُن کو توحید کی دعوت دی اور بے ہودہ حرکات سے منع فرمایا۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’اور لوطؑ کو یاد کرو، جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ’’ تم بے حیائی (کے کام) کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذّت (حاصل کرنے) کے لیے مَردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔‘‘ (سورۃ النمل54,55)حضرت لوط ؑ اپنی قوم کی عادتِ بد کی وجہ سے بڑے فکر مند رہتے اور دن رات اُنہیں نصیحت و تبلیغ کرتے رہتے، لیکن قوم پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ وہ مزید ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ فخریہ انداز میں یہ کام کرنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی وہ حضرت لوط ؑ کے ساتھ بھی سخت رویّہ رکھتے اور اُن کی باتوں کا مذاق اُڑاتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور قومِ لوط ؑ نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ۔ جب اُن سے اُن کے بھائی، لوطؑ نے کہا کہ’’ تم کیوں نہیں ڈرتے، مَیں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں۔ تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو اور مَیں تم سے اِس (کام )کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ (اللہ) ربّ العالمین کے ذمّے ہے۔ کیا تم اہلِ عالَم میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لیے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، اُن کو چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔‘‘ (سورۂ الشعرا 160-166) اُنہیں حضرت لوط ؑ کا سمجھانا بُرا لگتا تھا۔ چناں چہ اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’اگر تم ہمیں اِسی طرح بُرا کہتے رہے اور ہمارے کاموں میں مداخلت کرتے رہے، تو ہم تم کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔‘‘ قرآنِ پاک میں ہے ’’وہ کہنے لگے’’ اے لوطؑ ! اگر تم باز نہ آئو گے، تو (ہم تم کو) شہر بدر کر دیں گے۔‘‘ (سورۂ الشعرا: 167)

رپورٹ کے مطابق "حضرت لوطؑ مایوس ہونے کی بجائے قوم کو راہِ راست پر لانے کی جدوجہد میں مصروف رہے، لیکن جتنا حضرت لوط ؑ اُنہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے، وہ اُتنا ہی اُن کا تمسّخر اُڑاتے اور پھر ایک دن اُنہوں نے خود ہی عذابِ الٰہی کا مطالبہ کر دیا"۔

مزید :

روشن کرنیں -