کالج چھوٹاپھر کر کٹ میچ وہ لمحے مہیا کرتا جب پرانے یار اکٹھے ہوتے، بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر ماضی کی حسین یادوں کوکھوجتے اور خوب قہقہے لگاتے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:123
83/84 تک کالج آنا جانا ہوتا رہا پھر یہ سلسلہ منقطع ہو تے ہوتے سالانہ کالج فیسٹیول میں شرکت تک ہی محدود ہو گیا تھا۔ اس فیسٹیول میں کر کٹ میچ وہ لمحے مہیا کرتا جب ہم سب پرانے یار اکٹھے ہوتے، بوڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر ماضی کی حسین یادوں کوکھوجتے اور خوب قہقہے لگاتے تھے۔ اس سالانہ فیسٹیول میچ منعقد کرنے میں ہمارے دوست عمران سعید(عمران سعید بھی اپنی طرز کا واحد انسان تھا۔ بھاری جسم کی وجہ سے ہم اسے پیار سے(موٹا) کہتے تھے۔ ایک اور نام بھی تھا اس کا؟؟؟ لیکن یہاں لکھنا مناسب نہیں۔ وہ یاری کا پکا تھا لیکن چیزیں واپس کرنے کا نہیں۔ اوپنگ بیٹنگ کرتا تھا۔) کا بڑا ہاتھ ہوتا تھا پھر اس کے ساتھ ہاتھ ہوا تو یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔
پنجاب یونیورسٹی میں؛
فورمین کرسچین کالج(ایف سی کالج) سے میں بی اے کرکے میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج پہنچ گیا۔ اس زمانے میں قانون کی ڈگری 2سال کی پڑھائی کے بعد ملتی تھی لیکن ہڑتالوں، احتجاجوں کی وجہ سے کئی بار تین تین سال بھی لگ جاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب طلباء سرگرمیوں پر آئے دن پابندی لگتی رہتی تھی۔ضیاء الحق کا دور تھا اور سٹوڈنٹ یونین پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ طلباء تنظیموں سے منسلک طلباء آئے دن احتجاج کرتے اور اپنے حق کے لئے جلسے جلوس نکالتے تھے۔ دراصل انہیں طلباء کے مسائل سے کم اور اپنی سیاست سے زیادہ دلچسپی ہوتی تھی۔ نظام تعلیم میں سیاست گھس آئی تھی اور اسلامی جمعیت طلبا ء کی نظر میں اچھائی وہ تھی جو ان کی نظر میں اچھائی تھی اور برائی بھی وہ تھی جو ان کی نظر میں برائی تھی۔ ان کے عہدے داروں اور سرگرم ارکان کے لئے سب کچھ جائز تھا جبکہ باقیوں کے لئے سب کچھ ناجائز۔ڈبل سٹینڈر۔ اس تنظیم کے اکثر رہنما کئی کئی سال مختلف فیکلٹیز تبدیل کرکے یونیورسٹی چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ نہ ہی ہوسٹل چھوڑتے بس اپنی سیاست چمکاتے تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ بھی ان کے سامنے بے بس ہی ہوتی تھی۔سیانے کہتے تھے؛”بیٹا! اگر گھر کا نظام بگڑ جائے تو اسے درست کرنا ممکن نہیں رہتا جس کے چند ممبرز خونی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ اگر اداروں اور ملکوں کا نظام بگڑ جائے جن کے افراد یا ممبرز کی تعدا ہزاروں، لاکھوں میں ہو تواُسے درست کرنا شائد ممکن ہی نہیں رہتا۔“
میں لاء کالج پہنچا تو سردار محمد اقبال موکل پرنسپل تھے۔وہ نفیس اور بارعب شخصیت اوراے بلاک ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے۔ وہ ہمیں لاء کے پہلے سال”لینڈ ریونیو ایکٹ“ پڑھاتے تھے۔کمال لیکچر ہوتا اور کمال انگریزی بولتے تھے۔جی چاہتا وہ بولتے چلے جائیں اور ہم سنتے چلے جائیں۔یاور علی خاں لا آف ٹورٹس پڑھاتے تھے۔ انگلستان سے بیرسٹری پڑھ کر آئے تھے۔ وہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب یعقوب علی خاں کے فرزند تھے لیکن افسوس باپ کے نام کے برعکس اچھی شہرت نہ رکھتے تھے۔بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ ڈاکٹر عبدالمنان ڈین آف لاء تھے بعد میں کالج کے پرنسپل بنے۔وہ ہمیں ”اسلامک لاء اور جیورس پروڈنس“پڑھاتے تھے۔عبداللطیف ران کرمنل لاء جبکہ سید ذوالفقار علی کمپنی لاء پڑھاتے تھے۔ طاہر القادری بھی اس دور میں یہاں اسلامک لاء پڑھاتے اور نواز شریف کی اتفاق مسجد میں نماز جمعہ کی اما مت بھی کرتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔