علامہ محمد اقبالؒ (1)
تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں ایک طرف رفعتوں اور سربلندیوں کے حامل ادوار ہیں تو دوسری طرف غلامی کی طویل داستانیں بھی ہیں اور ایسی شخصیات بھی ہیں جن کے دم سے ملت کے جسد نے توانائی پائی ہے۔ انہی ہستیوں میں سے ایک علامہ محمد اقبالؒ بھی تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ ایک بہت بڑے مفکر، دانا، عالم، بزرگ، فلسفی اور شاعر تھے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں بہت کم ایسے شعراء نظر آتے ہیں جنہوں نے شاعری میں مقصدیت اور قومی نقطہ ئ نظر کو اوّلین مقام دیا ہو اور شاعری و فلسفہ کا حسین امتزاج پیدا کیا ہو۔ قومی مقصد کی اساس پر شاعری کی عظیم اور پُرشکوہ عمارت تعمیر کرنے والے علامہ اقبالؒ ہی تھے۔
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ 9نومبر1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے اُن کا نام محمد اقبال رکھا۔ علامہ اقبالؒ کے والد شیخ نورمحمد کا تعلق شیخ خاندان سے تھا۔ شیخ نورمحمد ایک نہایت متقی انسان تھے اُن کی شخصیت میں تصوف کا نمایاں پہلو تھا۔ آپ ایک روحانی شخصیت کے مالک تھے۔
اقبالؒ کا میلان تصوف کی طرف بھی انہی کی وجہ سے ہوا ولادت سے کچھ دن پہلے ان کے والد نے خواب میں دیکھا کہ بلندیوں پر پرواز کرتا ہوا ایک پرندہ ان کی جھولی میں آگرا ہے۔ اِس سے اُن کے والد نے یہ نتیجہ اُخذ کیا کہ ان کے گھر میں آنے والا فرزند بڑا بلند اقبال ہو گا اور یہ بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کر دیا۔ عام مسلمان بچوں کی طرح علامہ کو بھی ایک دینی مدرسے میں عربی کی تعلیم کے لئے داخل کرا دیا گیا۔ وہ پانچ سال کی عمر میں مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل ہوگئے تھے۔
سیّد میرحسن کی شاگردی نے اقبال کے فارسی اور عربی مزاج کی تحریک و ترویج کی اور ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اُن کے استاد میرحسن اردو عربی فارسی کی تدریس ہی نہ کرتے،بلکہ اپنے طلبا میں عربی اور فارسی کا عمدہ ذوق بھی پیدا کر دیتے تھے۔ انہیں عربی، فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ اقبال ایف اے تک آپ سے براہِ راست فیضیاب ہوئے بعد میں بھی آپ سے استفادہ کرتے رہے۔ اقبال نے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ 1893ء میں شعرگوئی کا آغاز کیا۔ ان کے استاد سیّدمیر حسن کی علم دوستی کی وجہ سے اقبال میں بھی عربی فارسی اور اسلامیات کا نکھرا ستھرا ذوق پیدا ہوا۔ 1893ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لے لیا۔ گجرات کے مشہور ڈاکٹر عطامحمد کی بیٹی کریم بی بی سے اقبال کی پہلی شادی ہوئی۔ اس شادی نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ عطیہ فیضی کے خطوط میں اس نکتے پر اقبال نے بہت زور دیا کہ یہ شادی ان کے خلاف طبع تھی اور ذہنی عدم مطابقت کے باعث وہ اس شادی پر خوش نہ تھے تاہم آفتاب اقبال اُن کے بڑے بیٹے ذہنی بصیرت میں جاوید اقبال سے کسی طور کم نہ تھے۔
1895ء میں علامہ اقبالؒ نے ایف اے کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا۔ بی اے میں داخلہ کے لئے لاہور آئے۔ لاہور تہذیب و تمدن کا مرقع تھا۔ یورپی تمدن کے اثرات نے بھی لاہور کے ایوانوں کو جگمگا رکھا تھا۔ انجمن پنجاب کے اثرات بھی ادبی حلقوں پر نمایاں تھے۔ اقبال کے ذہنی ارتقا میں ان کی لاہور آمد ایک جست کی حیثیت رکھتی ہے۔
لاہور آکر اقبال نے مجلسی زندگی کا آغاز کیا اور مشاعروں اور نجی محافل میں اپنی شاعری کو پیش کیا احباب اور اساتذہ کی طرف سے حوصلہ افزائی کے باعث اقبال آہستہ آہستہ ان مشاعروں میں اپنا مقام پیدا کرتے گئے۔ 1896ء میں انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور کی رکنیت اختیار کی۔ وہ نسلاً کشمیری تھے اس لئے اُنہیں کشمیریوں سے خاص لگاؤ تھا ان کی سیاسی تربیت میں اس بزم کا کردار اہم ہے انہوں نے تمام عمر اس پلیٹ فارم سے اپنی آواز بلند کی اور کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کے لئے کوششیں کیں۔
1897ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا اور عربی میں اول آئے۔ 1899ء میں ایم اے فلسفہ میں کامیابی پر گولڈمیڈل ملا۔ 24فروری1900ء میں اقبال کے دوستوں کے اصرار پر پہلی دفعہ انجمن حمایت اسلام کے 15ویں جلسہ میں شریک ہوئے اور ایک نظم پیش کی۔انجمن حمایت اسلام کے ساتھ اقبال کا یہ رابطہ تادمِ آخر جاری رہا یہ اپنے دور کی ایک فعال سیاسی اصلاحی اور معاشرتی تنظیم تھی، جس نے مسلمانوں کی فلاح میں اہم کردار ادا کیا۔ انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے لاکھوں لوگوں تک آپ کی شاعری پہنچی اور آپ نے اسی انجمن کی بدولت اہم سیاسی کارنامے سرانجام دئیے۔ ابتدائی دور میں اقبال نے داغ کو اپنی غزلیات بھیجنا شروع کیں۔ داغ بہت بڑے شاعر ہیں ان کی زبان دانی محاورہ بندی الفاظ کی چستی بیان کی شگفتگی اور طرح دار بحریں انہیں دیگر کلاسیکی شعراء میں اہم مقام دلاتی ہیں۔ اقبال ان کی تقلید میں شعر کہنے پر فخر کرتے تھے بعدازاں بدلتے ہوئے ذہنی رجحانات کے باعث اگرچہ اقبال نے طرزِداغ کو ترک کردیا لیکن اقبال کی شاعری میں کھٹکتے ہوئے الفاظ کا چناؤ محاورہ بندی صفتیں اور تلمیحات و استعارات کی طرف رغبت داغ کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔ 1901ء ہی میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے امتحان میں شرکت کی، مگر ناکامی ہوئی۔ 1903ء میں سب سے پہلی تصنیف ”علم الاقتصاد“ کی اشاعت ہوئی۔
لاہور کی ایک بزم میں سر عبدالقادر نے اقبال کی نظم ہمالہ سنی تو آپ اقبال کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف ہوگئے۔ انہوں نے ادبی جریدے ”مخزن“ کا آغاز کیا تو پہلے شمارے میں نظم ”ہمالہ“ شائع کی۔ جریدہ مخزن ان رسائل میں سے تھا، جس نے اقبال کا کلام لوگوں تک بکثرت پہنچایا۔
1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوگئے اقبال پر یورپ کے اثرات ہمہ جہت ہیں۔ ان کے افکار میں تغیر رونما ہوا اور ان کے مشاہدے میں بے پناہ وسعت پیدا ہوئی۔ یورپ میں انہیں احساس ہوا کہ شاعری کارِ فضول ہے اور وہ عملی طور پر مسلمانوں کو بیدار کرنے پر مائل ہوگئے۔ انہوں نے احیائے اسلام کا خواب دیکھا 1908ء میں لندن یونیورسٹی میں عربی کے استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا اور Lincon's Inn یونیورسٹی سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ اس یونیورسٹی میں داخلے کا سبب یہ تھا کہ سب سے بڑے قانون دان اور شخصیت کے طور پر حضرت محمدؐ کا نام سرفہرست لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے 1907ء میں پی ایچ ڈی کے لئے جرمنی کا سفر بھی کیا۔ وہاں وہ ”ایماویگناسٹ“ کے حسن صورت و سیرت کے اسیر رہے پہلے اس کے لئے اور پھر اس خاتون سے جرمن سیکھی۔ ایران میں مابعدالطبیعات کی اوّلین اشاعت ہوئی۔ 1908ء میں ہندوستان واپس آئے اور وکالت کا آغاز کیا۔ قانون کی تعلیم ان کی سیاسی بصیرت میں اضافے کا موجب بنی۔ 1909ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد مقرر ہوئے۔ 1910ء میں حیدرآباد دکن کا سفر اور مہاراجہ سرکشن پرشاد سے ملاقات کی۔1911ء میں دہلی میں منعقد آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے اجلاس کی صدارت کی اور بعدازاں پنجاب قانون ساز کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔