سال 2024میں متعدد پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں 

       سال 2024میں متعدد پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(فلم رپورٹر)سال 2024ء میں  متعدد پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں۔سال کا آغاز ارم پرویز بلال کی فلم ’وکھری‘ سے ہوا جس میں فریال محمود نے مرکزی کردار نبھایا۔ سماجی اور سنجیدہ موضوع کا احاطہ کرتی یہ فلم قندیل بلوچ کی زندگی سے مماثلت کے باعث ابتدا ہی سے خبروں کی زینت بن گئی تھی۔ باکس آفس نمبرز کے برعکس غیرملکی فیسٹیولز میں ملنے والی پذیرائی اس فلم کو اہم ٹھہراتی ہے۔رواں برس کے آغاز ہی میں ہدایت کار عمیر ناصر خان کی فلم ’نایاب‘ ریلیز ہوئی۔ ایک باصلاحیت خاتون کرکٹر، اس کے خواب اور مسائل کے گرد گھومتی اس فلم میں یمنیٰ زیدی نے مرکزی کردار نبھایا۔ فروری میں ہدایت کار، ابو علیحہ کی متاثر کن سٹار کاسٹ اور دلچسپ موضوع پر مبنی ’ٹکسالی گیٹ‘ ریلیز ہوئی۔اپریل میں ہدایت کار، وجاہت خان کی فلم ’دغا باز دل‘ ریلیز ہوئی جس میں مہوش حیات، علی رحمٰن خان، بابر علی جیسے اداکار نظر آئے۔ عید پر ریلیز ہونے والی اس فلم کی پروڈکشن کوالٹی تو اچھی تھی اور اس میں تفریحی عناصر کا بھی خیال رکھا گیا۔ اسی موقع پر ریلیز ہونے والے نعمان خان کی فلم ’ہم تم اور وہ‘ زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکی۔اس کے بعد ہم نے کنزہ ضیا اور عمار لاثانی کی ’پوپے کی ویڈنگ‘ اور اسد ممتاز کی ’نابالغ افراد‘ بڑے پردے کی زینت بنتے دیکھی۔ جون میں اظفر جعفری کی ’عمر و عیار‘ بڑے پردے کی زینت بنی۔جولائی میں ریلیز ہونے والی ہدایت کار عثمان ریاض کی فلم ’دی کلاس ورکر‘ پاکستان کی پہلی ہینڈ میڈ اینی میٹڈ فلم تھی جو پاکستان سنیماکے تناظر میں ایک اہم اور قابل توجہ تجربہ تھا۔

اگست میں شاہ ملک کی ’لیچ‘ اور عثمان رضوی کی ’مستانی‘ ریلیز ہوئیں۔دسمبر کے آخر میں گلوکار طلحہ انجم کی فلم ’کٹر کراچی‘ کو ریلیز کیا گیا۔

 2023ء کے آخر میں ریلیز ہونے والی ظہیر الدین کی فلم ’چکڑ‘ کی بازگشت دسمبر 2024ء میں بھی سنائی دی۔ایک ایسے وقت میں جب بھارتی سینما اپنے عروج پر نظر آرہا ہے، ہمارا سنیمازوال پذیر ہے۔ جب پڑوس میں ایک فلم کو 10، 10 ہزار اسکرینز میسر ہیں، ہمارے فلم سازوں کو محض 100 سکرینز پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا سنیمابھی اپنی پروڈکشن کوالٹی اور فلموں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستانی سنیماسے کئی گنا آگے نظر آتا ہے۔فلم سازی خدمت خلق نہیں، یہ ایک کاروبار ہے اور کوئی بھی کاروباری شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا لیکن پاکستانی فلم سازوں کے نصیب میں نفع نہ ہونے کے برابر ہے۔اس پورے معاملے میں ایکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سے زیادہ ہمارا سسٹم قصور وار ہے۔ بھارت میں جب ایک پروڈیوسر فلم بناتا ہے تو سینما گھروں کی زینت بننے سے قبل ہی وہ فلم اپنے تھیٹریکل اور نان تھیٹریکل حقوق کی فروخت سے نہ صرف سرمایہ پورا کر لیتی ہے بلکہ منافع میں چلی جاتی ہے۔اس کی ایک بڑی مثال ’پشپا ٹو‘ ہے۔ 400 کروڑ کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے ریلیز سے قبل ہی ڈسٹری بیوشن، میوزک، ڈیجیٹل اور سیٹیلائٹ حقوق کے ذریعے ایک ہزار کروڑ کی آمدن کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔البتہ پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ میوزک، ڈیجیٹل اور سیٹیلائٹ رائٹس کی فروخت تو خواب ہوئی۔ اب تو ڈسٹری بیوشن رائٹس کا تصور بھی قصہ پارینہ ہوا۔ مثال لیجیے، اگر ایک فلم پر ایک کروڑ لاگت آئی ہے اور پہلے شو سے ایک لاکھ آمدنی ہوئی تو اس آمدنی کا لگ بھگ 40 سے 50 فیصد ایگزی بیوٹر یا سنیما مالکان کو جاتا ہے۔ بچی ہوئی رقم میں سے 10 سے 15 فیصد ڈسٹری بیوٹر یا تقسیم کار کا حصہ ہوتا ہے۔ باقی رقم پروڈیوسر تک پہنچتی ہے یعنی ایک لاکھ میں محض 40 ہزار۔ ایسے میں جب آپ کے پاس سکرینز ہی 125 ہوں تو نتائج کا خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کیلئے سنیما گھروں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے اور یہ سنیماگھر تب ہی قائم ہوں گے جب ان کا قیام منافع کا سودا ٹھہرے گا۔ جس وقت پاکستان میں بھارتی فلمیں ریلیز ہورہی تھیں اس وقت ملک بھر میں سینما گھروں میں اضافہ ہوا۔ ملٹی پلکس کلچر پروان چڑھنے لگا۔ ساتھ ہی پاکستانی فلموں کی پروڈکشن میں بھی تیزی آئی۔ سبب یہ ہے کہ بھارتی فلموں کی وجہ سے ناظرین سنیماگھروں کا رخ کر رہے تھے۔ یہ ’فْٹ فال‘ سنیما

 بینی کو فروغ دے رہا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو بھی ناظرین مل رہے تھے۔ البتہ پاک-بھارت تعلقات میں بڑھتی کشیدگی اور بعدازاں بھارتی سرکار کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مثبت ٹرینڈ قصہ ماضی بن گیا۔معروف ہدایت کار سید عاطف علی کے نزدیک بھارتی فلموں کی پاکستانی سنیماگھروں میں نمائش سے نہ صرف سینما انڈسٹری پروان چڑھے گی بلکہ پاکستانی فلمیں بھی سنیماکے فٹ فال سے فائدہ اْٹھا سکیں گی۔پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین سید عاطف علی کے مطابق سنیماکی بہتری کے لئے اب حکومت ہی کو کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان میں اب سنیما اشرافیہ کی تفریح تک محدود ہوگیا ہے۔ عوامی سنیماجوکہ سنگل سکرین پر مشتمل تھا وہ دم توڑ چکا ہے۔ جس طرح بجلی، گیس، پانی عوام کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے بالکل اسی طرح سنیما بھی اب عوام کے ہاتھ نہیں آتا۔ جب تک حکومت فلم سازوں کے لئے فلم میکنگ سے مشروط گرانٹ کا اعلان نہیں کرتی، حالات میں بہتری کا امکان نہیں۔رواں برس جہاں پاکستانی فلموں کے لئے مایوس کن رہا وہیں کراچی کے فلم بینوں کیلئے تاریخی اہمیت کے حامل، کیپری سینما کی بندش بھی کرب ناک ثابت ہوئی جسے سید عاطف علی نے بھی شدت سے محسوس کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’اس سال کراچی والوں کی حسین یادوں میں بسنے والا کیپری سنیما بھی بند ہوگیا۔ سنا ہے فلم انڈسٹری کی بہتری کی امیدوں کی طرح کیپری کی بنیادیں بھی ڈھائی جارہی ہیں۔

مزید :

کلچر -