نیا سال، نئی اُمیدیں
نیا سال شروع ہوا،جانے والا سال بہت سی اچھی،بری یادیں چھوڑ گیا۔ عالمی سطح پر بہت سی تبدیلیاں آئیں، کئی معاملات حل ہوئے اور بہت سے مزید بگڑ گئے۔ فلسطین پر بدترین اسرائیلی جارحیت جاری ہے بلکہ اب تو اس کا دائرہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک تک بڑھ چکا ہے۔اسرائیل“حق ِ دفاع“ کی آڑ میں آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور کوئی اِس کے قدم روکنے والا نہیں ہے۔گزشتہ برس لبنان، شام اور ایران پر بھی اسرائیل نے حملے شروع کر دیئے۔اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی حمایت میں قرادادیں منظور ہوئیں،عالمی عدالت انصاف کا عبوری فیصلہ آیا،اسرائیلی وزیراعظم کو قابل گرفتار قرار دیا گیا لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سمیت بہت سے رہنماء اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوئے۔ شام میں لگ بھگ ڈیڑھ دہائی سے جاری باغیوں کی کوششیں ثمر آور ثابت ہوئیں، بشار الاسد کے طویل اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔ افریقہ میں بھی عوامی مظاہروں اور انتخابی عمل کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں انتخابات ہوئے جن میں بنگلہ دیش، بھارت، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔بنگلہ دیش میں انتخابات ہوئے، حسینہ واجد وزیراعظم بن گئیں لیکن پھر اُنہیں اقتدار چھوڑ کر ملک بدر ہونا پڑا، طلباء کا احتجاج اُن کو مہنگا پڑ گیا۔وہاں ڈاکٹر یونس نے حکومت سنبھال لی لیکن ابھی بھی معاملاتِ ریاست گھمبیر ہی ہیں۔ بھارت میں انتخابات ہوئے، نریند مودی مشکل سے ہی سہی لیکن وزیراعظم بن ہی گئے۔ برطانیہ میں 14 برس بعد لیبر پارٹی کامیاب ہوئی، عام خیال یہی ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو اسرائیل کا ساتھ دینے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوئے اور اِسی ماہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیں گے۔ گزشتہ سال صحافیوں کے لئے انتہائی بُرا ثابت ہوا، اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق سال 2024ء میں 68 صحافی اور میڈیا ورکرز دوران ڈیوٹی جاں بحق ہوئے جن میں 42 ہلاکتیں تنازعات والے علاقوں میں ہوئیں جو ایک دہائی میں ہونے والی صحافیوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔گزشتہ سال تنازعات والے علاقوں میں بچوں کے لئے بھی بدترین سال ثابت ہوا۔
پاکستان میں عام انتخابات ہوئے لیکن سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکا، کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی اِسی لئے مخلوط حکومت بنی،مسلم لیگ(ن) نے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر وفاق میں اقتدار سنبھالا، پنجاب میں بھی ن لیگ کی حکومت بنی، سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی جبکہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزرئے اعلیٰ حکومت چلا رہے ہیں۔مریم نواز کو ملکی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔پورا سال سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی میں ہی نکل گیا، بہرحال آخر میں خیر کی اُمید پیدا ہوئی جب پی ٹی آئی اور حکومت مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر رضامند ہو گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے مطالبات میں بانی پی ٹی آئی سمیت اُن کی جماعت کے دیگر اسیروں کی رہائی کے ساتھ ساتھ 26 نومبر اور 9مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل ہے جنہیں پی ٹی آئی کل (دو جنوری) کو ہونے والی با ضابطہ ملاقات میں سامنے رکھے گی، اگرمذاکرات نتیجہ خیز ہوئے تو بانی سول نافرمانی کی کال واپس لے لیں گے۔ سال کے آخری ماہ میں سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد فوجی عدالتوں نے سانحہ9مئی کے زیر حراست تمام ملزمان کو سزائیں سنا دیں۔ حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا، بات چیت کی اور بالآخر کامیابی حاصل کر لی، مدرسہ رجسٹریشن کا معاملہ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہو گیا۔ اُمید یہی ہے کہ خیبرپختونخوا کے علاقے پارہ چنار کے ضلع کرم میں جاری کشیدگی بھی ختم ہو جائے گی اور لوگوں کی زندگی آسان ہو گی۔
گزرنے والے سال میں بہت سے ممالک کے سربراہان نے پاکستان کا دورہ کیا، ایرانی صدر ابراہیم رئیسانی نے بھی پاکستان کا دورہ کیا جو بعد میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے۔اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں روس اورایران کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک کے وزراء، سربراہان اور وزرائے اعظم نے شرکت کی،اِس سے پاکستان کا مثبت تاثر اُبھرا اور دنیا بھر میں نام روشن ہوا۔معاشی محاذ پر بھی حکومت نے اہم کامیابیاں سمیٹیں، ملک کے زرمبادلہ کے زخائر قابل ِ اطمینان سطح تک پہنچ گئے، جاری کھاتے (کرنٹ اکاؤنٹ) کے خسارے کو منافع میں تبدیل کیا گیا، شرح سود اور مہنگائی میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی، برآمدات اگرچہ بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی،پہلی سہ ماہی کے اعداوشمار کے مطابق ملک کی جی ڈی پی میں البتہ خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، بڑی صنعتوں اور زراعت سمیت بعض سیکٹروں کی افزائش اہداف سے کم رہی، ٹیکس محاصل بھی ہدف سے کم رہے تاہم حکومتی معاشی ٹیم پُر اُمید ہے کہ وہ اِس معاملے پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو مطمئن کر لے گی اور اِسے آئندہ قرض کی قسط کے حصول میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی۔ پاکستان گزشتہ سال آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر قرض لینے میں کامیاب ہوا۔ معاشی بہتری کے باعث پاکستان سٹاک مارکیٹ میں مسلسل تیزی دیکھنے میں آئی، گزشتہ سال پاکستان سٹاک ایکسچینج نے سرمایہ کاروں کو 78 فیصد ریٹرن دینے کا ریکارڈ بنا دیا، پہلی بار ایک لاکھ پوائنٹس کا سنگ میل عبور کیا، اِس کا ہنڈرڈ انڈیکس 62 ہزار پوائنٹس سے بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ 10 ہزار پوائنٹس کی تاریخی سطح بھی عبور کر گیا یعنی اِس میں 50 ہزار سے بھی زیادہ پوائنٹس کا اضافہ ہوا، سرمائے کی مالیت پانچ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 14 ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کر گئی جس کی وجہ سے یہ 50 ارب ڈالر مالیت کی مارکیٹوں میں شامل ہو گئی۔ گزشتہ برس دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری رہی، 2024ء میں 59 ہزار سے زائد کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے جن میں 925 دہشت گردبشمول خوارج ہلاک جبکہ سینکڑوں گرفتار بھی ہوئے۔کھیل کے میدان میں کرکٹ میں زیادہ خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی لیکن دوسرے کھیلوں میں پاکستان کی کارکردگی کافی حوصلہ افزاء رہی، ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں 40 سال بعد پاکستان کے لئے گولڈ میڈل جیتا، قومی کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کے علاوہ مختلف ممالک کی ٹیموں نے ملک کا دورہ کیا۔ 21سا ل بعد پاکستانی ہاکی ٹیم نے سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں جگہ بنائی، ایشیئن چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک ہی پہنچ سکی۔حیدر سلطان نے روسی ویٹ لیفٹرکو ہرا کر برکس گیم میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پاکستانی روئیرز نے تھائی لینڈ انٹرنیشنل روئنگ مقابلوں میں نو طلائی تمغے حاصل کیے۔ پاکستان کے زاہد مغل نے ٹوکیو باڈی بلڈنگ ورلڈ کپ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔گزشتہ سال عالمی دفاعی نمائش (آئیڈیاز)، ورلڈ کلچر فیسٹیول اور عالمی کتب میلے سمیت بعض بین الاقوامی سطح کے ایونٹس کا کامیابی سے انعقاد کیا گیا جن میں درجنوں ممالک نے شرکت کی۔
مجموعی طور پر گزشتہ سال پاکستان کے لئے بہتر رہا، بعض معاملات میں پیش رفت ہوئی، ڈیفالٹ کا خطرہ بھی ٹل گیا لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ معیشت میں بہتری تو آئی ہے لیکن ابھی مستحکم نہیں ہوئی،سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے دور کا آغاز تو ہوا ہے لیکن اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ ابھی وثوق سے کہا نہیں جا سکتا، مکمل سیاسی استحکام لانے کے لئے طویل سفر طے کرنا پڑے گا، معاشرے میں انتشار اور تقسیم موجود ہے،اِس میں بہتری کی بجائے بدتری ہی آ رہی ہے۔ سفارتی سطح پر کامیابیاں حصے میں آئیں لیکن افغانستان کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔نئے سال کی آمد کے ساتھ اُمید اور خواہش یہی ہے کہ امن و امان قائم ہو، دہشت گردی کا جن واپس بوتل میں بند کر دیا جائے، تمام تر مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہو جائیں،آپس کی کدورتیں مٹ جائیں، بیرونی سرمایہ کا راستہ کھلے، عوام کی مشکلات کم ہوں،اداروں پر اعتماد بحال ہو، نظام مضبوط ہو اور ریاستی معاملات آگے بڑھیں۔یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، منزل دور نظر آتی ہے، راستہ بھی دشوار ہے لیکن اگر مل کر خلوصِ نیت کے ساتھ اِس سفر کو طے کرنے کا ارادہ کر لیا جائے تو ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔ پوری قوم کو نیا سال مبارک، اللہ کرے یہ حقیقی معنوں میں خوشی کا پیغام لائے۔آمین!
٭٭٭٭٭