کیلنڈر نہیں خود کو بدلیں 

  کیلنڈر نہیں خود کو بدلیں 
  کیلنڈر نہیں خود کو بدلیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب سال تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے رات گزر جاتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ 2024ء کی مبارکبادیں دے رہے تھے۔ آج 2025ء ڈنکے بجاتا آ گیا ہے۔ یہ ماہ و سال کا کھیل انسان کا اپنا بنایاہوا ہے، کسی کے لئے ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور کوئی سال گزر جانے پر کہتا ہے جلدی گزر گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے گردش ماہ و سال کے تھپیڑے دیکھے ہیں۔ کل کا دن جیسا تھا ویسا ہی دن آج بھی ہے بس کیلنڈر کا ہندسہ بدل گیا۔ کسی نے بیس سال گزار لئے ہیں، کوئی ساٹھ سال گزار چکا ہے، کوئی اس سے بھی کم یا زیادہ گزار چکا ہوگا، پہلا دن گزر جائے گا تو باقی دن ایک جیسے لگنا شروع ہو جائیں گے۔ کسی کو گزرا سال ایک خوشی کے سال کی صورت یاد رہے گا اور کوئی اسے سال حزن کہے گا۔ یہ دھوپ چھاؤں کی زندگی ہمیں کبھی ایک جیسا رنگ نہیں دکھاتی۔ میں ایک بزرگ کو جانتا ہوں، وہ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں۔ چھوٹی سی فیملی ہے اور سادہ سی زندگی گزارتے ہیں۔ برسوں سے دیکھ رہا ہوں وہ ہر نئے سال کے موقع پر اپنے گھر سے باہر آکر بیٹھ جاتے ہیں ہر ملنے والے کو گلے لگا کر کہتے ہیں، جو سال گزر گئے، ان پر تو اب کسی کا بس نہیں چلتا لیکن یہ جو نیا سال شروع ہوا ہے اسے اچھی سوچ کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرنا۔ دوسرے کے کام آنا اور کسی بھی ذی روح کو دکھ نہ دینا، کیونکہ دکھ یاد رہ جاتے ہیں، سکھ بھول جاتے ہیں، اگر کوئی دکھوں کے حوالے سے تمہیں یاد رکھتا ہے تو یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔ کوشش کرو لوگ تمہیں سکھ بانٹنے والے کے طو رپر یاد رکھیں۔ کئی ان کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں، کئی غیر سنجیدہ انداز میں سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ میں آج ان سے ملوں گا وہ یقینا اپنے گھر کے باہربیٹھے ہوں گے۔ میں انہیں بتاؤں گا گزرے سال میں ایک بار پھر کوتاہی ہو گئی میں کسی کو راشن تقسیم نہیں کر سکا۔ میں کسی کو ایسی خوشی نہیں دے سکا جس کی وجہ سے وہ مجھے یاد رکھے۔ میں جانتا ہوں وہ کیا کہیں گے۔ ان کا اس حوالے سے ایک جملہ ہوتا ہے۔ کوئی بات نہیں ابھی زندگی ہے ناں، نیا سال مل گیا ہے، اس بار نہ بھولنا، ایسا کیا تو سارے ماضی کی تلافی ہو جائے گی۔ میں ایک بار پھر ان سے وعدہ کرکے گھر آ جاؤں گا اور خدشہ یہی ہے کہ ایک بار پھر زندگی کی ہماہمی میں بھول جاؤں گا کہ کسی کے کام آنا ہے، کسی کو خوشی دینی ہے، کسی کے غموں کی تلافی کرنی ہے۔ اگر مجھے اس سال یاد رہا تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی، کیونکہ یہ خوش قسمتی اتنی دراز نہیں ہو سکتی کہ میں ساری زندگی ضائع کردوں اور کہوں ایک موقع اور مل جائے تو کروں گا۔

نیا سال بھی ایک بہت بڑی کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ صرف ایک ہندسہ بدلتا ہے لیکن احساس ایسے ہوتا ہے جیسے اب سب کچھ بدل جائے گا۔ افراد اور قوموں کی زندگی میں تبدیلی آنی چاہیے۔ انسان نے جب کیلنڈر کی بنیاد رکھی ہو گی تو ضرور یہ بات پیشِ نظر ہو گی کہ ایک اختتام کے بعد دوسرے کا آغاز ہونا چاہیے۔جس طرح ہم چلتے ہی رہیں اور منزل نہ آئے تو بے دل اور رائیگانی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ قدرت نے چیزوں کو آغاز  و اختتام کی صورت رکھا ہے۔ آج نئے سال کا سورج بھی طلوع ہوا ہے تو اسے شام کو غروب ہونا ہے۔ انسان کو بھی چاہیے کہ وہ آغاز و اختتام کی اس فطرتی تقسیم کے ساتھ زندگی گزارے۔ نیا سال آئے تو اپنی پرانی روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔  اس میں اگر کمی یا کوتاہیاں ہیں تو انہیں دور کرنے میں بخل یا تساہل سے کام نہ لے۔ یہی بات قوموں کے لئے بھی ناگزیرہے۔ جو قومیں حساب سود و زیاں کرکے آگے بڑھتی ہیں، ان کی منزل اس طرح کھو نہیں جاتی جس طرح ہماری کھو چکی ہے۔ ہم نے اپنے اس ملک میں  77سے زائد نئی صبحیں دیکھی ہیں، ہر صبح امید لے کر آتی رہی ہے، مگر اس امید کو یاس میں بدلتے رہے ہیں۔ ہم آج بھی ناصر کاظمی کے اس شعر کی تصویر بنے ہوئے ہیں:

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں 

جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

ایک مضبوط، مستحکم، فلاحی اور خوشحال پاکستان کی صبح ہمارا مقدر کیوں نہیں بن سکی۔ کل جو سورج غروب ہوا، اس کے ساتھ کیاکچھ نہیں ماضی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ کیسے کیسے واقعات اور کیسی تلخ یادیں اس مملکت کی گیلری میں اضافہ کر گئیں۔ آج بھی ہم صرف دعوے کرتے ہیں، نئے سال میں بھی دعوے ہی کریں گے۔ کبھی عمل کی نوبت بھی آئے گی؟ کبھی وہ صبح بھی نصیب ہوگی جو تقسیم کے وقت لٹے پٹے،کٹے قافلوں کا خواب تھی۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، ہم اپنا نظام سیدھا کر سکے اور نہ معیشت کو، دونوں آج بھی ڈانوا ڈول ہیں۔ انتشار اتنا ہے کہ آج بھی مسندِ اقتدار پر بیٹھے ہوئے افراد کو یہی کہنا پڑتا ہے۔ ملک میں انتشار کی اجازت نہیں دیں گے جن معاملات پر ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی قومیں کب کی قابو پا چکی ہیں ہم ان میں ایسے الجھے ہوئے ہیں جیسے ابھی کل آزاد ہوئے ہوں۔ اداروں میں ٹکراؤ کی جس حالت نے ہمیں گھیر رکھا ہے اس سے نجات کی کوئی صورت نکل آئے تو نیا سال مبارک ثابت ہو۔ جہاں یہ باتیں ہوتی ہوں کہ فلاں جماعت یا فلاں لیڈر کے لئے یہ سال بھی اچھا نہیں ہوگا، وہاں بہتری کی اُمید خواب و خیال سے آگے کیسے بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان آگے بڑھنے کو ترس رہا ہے، اس کا یہ مقدر نہیں کہ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا رہے یا سیاسی عدم استحکام کی آماجگاہ بنا رہے۔ اسے آگے بڑھنے کا راستہ دو، یہی نئے سال کا اولین سوال ہے۔

ان سب باتوں کا مطلب یہ نہیں ہم ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد نہ دیں۔ مبارکباد دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے آس اور امید کے چراغ جلتے ہیں مبارکباد اس وقت دی جاتی ہے،جب خوشی دستک دیتی ہے۔ اس سال کو اگر ہم خوشی کی دستک بنا دیں تو سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ نیا سال خوشی کا سال ہو، اس دعا کے ساتھ آگے بڑھیں۔ خوشیاں دوسروں میں بانٹنے سے بڑھتی ہیں جب معاشرہ ہی ایسا بن جائے کہ ہر شخص اپنی خوشی کی بجائے دوسرے کی خوشی کا خیال رکھنے لگے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے خوش قسمت انسان وہ ہے جسے اللہ خیر بانٹنے کے لئے چن لیتا ہے۔ دعا کریں کہ اس نئے سال میں اللہ ہم سب کو خیر بانٹنے والا بنا دے۔ ذرا سوچیں کہ ایساہو جائے تومعاشرے میں خیر ہی خیر نہیں ہوگی۔ پھر جھوٹ، فریب، طمع، خود غرضی، مفاد پرستی، ظلم، نفرت سب قصہ ء پارینہ نہیں بن جائیں گے، آیئے عہد کریں اس سال کو خوشی اور خیر کا سال بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -