وحشتوں کے سلسلے
وحشتوں کا بے آب و گیاہ صحرا کہ جس میں چلتے ہوئے ریت کے ذرے انگاروں کی طرح پاؤں کو چھلنی کر دیں پیاس سے حلق میں کانٹے اگ آئیں۔ آنکھوں میں خوف کے سایوں کا لامتناہی سلسلہ۔ بھٹکتے ہوئے لوگ اور گھبرائی ہوئی مائیں کہ جن کی نگاہیں اپنے بچوں کی متلاشی ہیں اپنی عصمتوں کی حفاظت کرتی یہ عفت مآب بیبیاں کہیں محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرتی ہیں لیکن وحشتوں کا عفریت ہر گلی کوچے میں پھیلتا گیا کیا بچے کیا نوجوان کیا خواتین ہر ایک کا تعاقب کیا گیا اور جہاں پر بھی کوئی شخص نظر آیا اسے وحشتوں کا عفریت لے گیا وحشت اور دہشت کی پھیلتی ہوئی آگ نے کوئی شہر کوئی جگہ کوئی دیار نہ چھوڑا یہ ایک گزشتہ سال پر ہی کیاموقوف وحشیوں نے سالہاسال زندگی۔کی کوئی علامت جہاں نظر آئی اسے مٹا ڈالا 2024ء دنیا میں رونما ہونے والے حادثات و سانحات ایک طرف اور غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت ایک طرف اسرائیل نے مسلمانوں کی عبرت کے لیے وہ ستم ڈھائے کہ الحفیظ الامان اسرائیلی درندوں کے بڑھتے ہوئے قدم غزہ کی گلیوں کو روندتے ہوئے لبنان اور لبنان سے شام تک پہنچے اور شام کے آگے وہ اپنے اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ شام کے بعد ایران اور اس کے بعد اسرائیل کے اہداف میں کون شامل ہے کیا مصر کیا یمن اسرائیل اور اس کے معاون و مددگار امریکہ اور دوسرے طاقتور ممالک نے جیسے یہ تہیہ کر لیا کہ دنیا میں مسلمانوں کا خاتمہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے دنیا میں جہاں بھی مسلمان مکین ہیں اگر انہیں براہ راست کوئی جسمانی تکلیف نہ بھی پہنچائی گئی ہو لیکن انہیں نفسیاتی اذیتوں سے دوچار ضرورکیا گیامسلمانوں کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل جو کھیل کھیلتے آرہے ہیں جو سلوک کیا جاتا رہا ہے یہی انجام دوسروں کے لیے ایک پیغام ٹھہرا صدام حسین کوعید کے روز پھانسی دی گئی تو یہ بھی مسلمانوں کے لیے ایک نفسیاتی حملہ تھا کہ مسلمان اپنے انجام سے باخبر رہیں امریکہ نے جن باتوں کو جواز بنا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی عراق کو ملیا میٹ کر کے وہاں اپنے اہداف حاصل کر کے امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے عراق میں وہ کچھ نہیں ملا جس کا جواز بنا کر اس پر چڑھائی کر دی تھی امریکہ کو دنیا میں کہیں بھی اپنے مذموم مقاصدکے لیے کسی کی اجازت یا کسی اخلاقی پہلوؤں کو نظر میں رکھنا ضروری نہیں ہوا دنیا ایک طرف تہذیب کا درس دیتی ہے اخلاقیات کی باتیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف تہذیب اور اخلاق کی دھجیاں بھی اڑائی جاتی ہیں دنیا میں اس وقت ایک ہی قانون رائج ہے اور وہ ہے طاقت کا قانون جس کے بل بوتے پر امریکہ اور اسرائیل نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی آج اگر ہم غزہ کی صورتحال کا جائزہ لیں تو اسرائیل کے سورماؤں نے مسلمانوں کو وہ زخم دیے کہ کسی سے اس کا علاج بھی ممکن نہیں مسلمانوں کوجسمانی اور روحانی زخم دئیے گئے کیا مساجد کیا تعلیمی ادارے علاج گاہیں چرچ ہجرت کرتے ہوئے لوگ ہر جگہ اسرائیلیوں نے مسلمانوں کا تعاقب کیا حتیٰ کہ مسلمان اگر کہیں امدادی سامان لینے کے لیے اکٹھے ہوئے تو ان پر بھی گولہ و بارود برسا دیا گیا دنیا میں کافروں نے اس بات کو منوا لیا کہ وہ کسی مذہب کسی قانون قاعدے کسی اخلاق اور تہذیب کے پابند نہیں دنیا میں ہر مذہب کی تعلیمات انسانیت کا درس دیتی ہیں لیکن شاید یہودی مذہب کا درس یہودیوں تک نہیں پہنچا اپنے مذہب کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے امریکیوں اور یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ وہ کھیل کھیلے کہ کربلا کے مناظر اُبھر جائیں فلسطین کی گلی گلی روزانہ کی بنیادوں پر کربلائی مناظر دنیا نے دیکھے ایسے ایسے منظر کہ جن کو دیکھنے کی بھی کوئی تاب نہ رکھتا ہو لیکن دنیا کا سفاک اسرائیل اور امریکہ کسی جانور سے بھی زیادہ بھیانک طبیعت کا مالک ہے کہ جانور بھی کسی اصول اور ضابطے کے پابند ہوتے ہیں ہم نے اکثر یہ دیکھا کہ کسی بکری/ ہرن کا بچہ بھی کسی بھیڑیے یا شیر کو نظر آیا تو اس بھیڑیے اور شیر نے بچے کی حفاظت کی لیکن اسرائیل اور اس کے حواریوں نے دنیا میں وحشتوں کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ کرہ ارض میں بسنے والے جانور بھی شرما کر رہ جائیں مسلمان جو اپنی ایک تہذیب۔تاریخ۔ایک تعلیم اور اخلاقیات کی اعلی مثالیں رکھتے ہیں وہ اپنے روایتی معصومیت کے حصار میں رہے اور ظالم یہودی مسلمانوں کی ہلاکت کا سامان کرتا رہا دنیا کی ترقی کی ہلاکت انگیزیوں کے سارے سامان مسلمانوں پر آزمائے گئے اور مسلمانوں کو ان ہلاکت انگیزیوں کا شکار کیا گیا ایک 2024ء ہی کیا مسلمانوں پر ہمیشہ سے عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا ہے مسلمانوں کے لیے یہ بات یاد رکھنے کو ہے کہ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں دنیا کا کوئی ان کا دوست نہیں مسلمانوں کا کوئی بہی خواہ نہیں ہمیں اپنی خیر خواہی خود ہی کرنی ہوگی اس قابل ہوناہوگا کہ دنیا میں امن کے دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں۔
اب جناب عباس ثاقب کی ایک آزاد نظم
*اے وارثِ شبِ اسرا!*
]یوم القدس کے موقع پر وارثِ شبِ اسرا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے حضور استغاثہ[
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے حضور میں اے وارثِ شبِ اسرا
یہ استغاثہ ہے
کہ ارضِ پاکِ فلسطین،
آبروئے براہیم ؑ،
آرزوئے سلیماں ؑ،
قرارِ مریم ؑ و عیسیٰ ؑ،
سکونِ قلبِ محمدؐ
یہودیوں کی
لہو رنگ، آہنی، ستم انگیز
سازشوں میں گھری ہے
یہاں کی ماؤں کی آنکھوں میں
ایک مدت سے
کٹے پھٹے ہوئے بچوں کے عکس رہتے ہیں
یہاں کی بہنیں بھی
مریم کی طرح
خون کے دریا کے ساتھ ساتھ
بہت دور تلک
حدِ نگاہ و حد فہم سے بھی آگے تک
چلتی جاتی ہیں
کہیں تو موسیٰ کا صندوق جا کے ٹھہرے گا
یہاں کے باپ
کنویں کی منڈیر پر بیٹھے
پکارتے ہیں سبھی
اپنے اپنے یوسف کو
یہاں کے بھائی
نگاہوں میں
اپنی بہنوں کی
ردا کے چیتھڑے، پارہ لباس
لوٹی ہوئی عصمتوں کے منظر سے
الجھتے رہتے ہیں
یہاں کے بچے کبھی لوریاں نہیں سنتے
ہوا میں گونجتی ہر وقت گولیوں کی صداؤں سے
آشنا بچے
لہو اگلتے ہوئے لفظ یاد کرتے ہیں
یہ سربریدہ بدن، خون سے اٹے چہرے
یہ تار تار ردائیں، یہ پارہ پارہ لباس
پکارتے ہیں
سیاست کے ناخداؤں کو
ضمیرِ عالم ِ انسانیت مگر چپ ہے
مگر مرے مولا!
نگاہِ مسجد اقصیٰ تری تلاش میں ہے
ترے ظہور کی معراج کے سفر کے لیے
تجھے پکارتی ہے
ضمیرِ عالم انسانیت سے کہتی ہے
یہ بات کہہ دو خدایانِ ظلمتِ شب سے
کہ جب کبھی مرے سینے پہ
وارثِ شبِ اسرا کا عکس ابھرے گا
تو صبحِ نو کا اجالا یہیں سے پھوٹے گا