دینی مدارس رجسٹریشن بل
دینی مدارس ہمیشہ سے اسلامی تعلیمات کے فروغ، معاشرتی اصلاح، اور روحانی تربیت کا مرکز رہے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف اسلامی اقدار کو زندہ رکھتے ہیں بلکہ لاکھوں طلبہ کو تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔ تاہم،عصرِ حاضر میں مدارس کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں رجسٹریشن،مالی شفافیت، اور غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات شامل ہیں۔ ایسے میں "مدارس رجسٹریشن بل " کی منظوری ایک اہم قدم ہے، جو دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر بنیاد فراہم کرتا ہے۔پاکستان میں لاکھوں دینی مدارس ہیں جو تعلیم اور تربیت کے نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، پچھلی دہائیوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تناظر میں دینی مدارس کے خلاف مختلف منفی پروپیگنڈے کیے گئے۔ کچھ حلقوں نے مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی ناپسندیدہ کوششیں کیں۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ ایک ایسا قانونی فریم ورک تشکیل دیا جائے جو مدارس کی رجسٹریشن، نصاب، مالی امور، اور شفافیت کو یقینی بنائے۔ مدارس بل اسی ضرورت کے تحت متعارف کیا گیا تاکہ دینی مدارس کے نظام کو باقاعدہ بنایا جا سکے اور ان پر لگائے جانے والے الزامات کا ازالہ کیا جا سکے۔اس بل کا مقصد نہ صرف مدارس کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے بلکہ ان کے کردار کو قومی ترقی کے تناظر میں مزید مؤثر بنانا بھی ہے۔مدارس بل کے ذریعے دینی مدارس کو رجسٹریشن کے ایک منظم عمل کے تحت لایا جائے گا، جس سے مالی اور انتظامی امور میں شفافیت آئے گی۔اس سے نہ صرف مدارس کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ انہیں معاشرتی سطح پر مزید قبولیت ملے گی۔ مدارس بل کے تحت دینی مدارس کو قومی تعلیمی نظام کے ساتھ منسلک کیا جائے گا، جس سے طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی میسر آئیں گے۔یہ اقدام مدارس کے طلبہ کو معاشی مواقع فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو ختم کرنے کے لیے قانونی فریم ورک کی ضرورت تھی۔ مدارس بل کے تحت تمام مدارس کو ایک منظم ڈھانچے کے تحت لایا جائے گا، جس سے ان پر لگائے جانے والے غیر ضروری الزامات کا خاتمہ ہو گا۔ مدارس بل کے ذریعے نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی۔دینی اور عصری تعلیم کا امتزاج طلبہ کو معاشرتی ترقی میں بہتر کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گا مدارس بل کے تحت حکومت دینی مدارس کو مالی امداد اور دیگر سہولیات فراہم کرے گی۔ اس سے نہ صرف ان اداروں کے مالی مسائل کم ہوں گے بلکہ طلبہ کو بہتر تعلیمی ماحول بھی فراہم کیا جا سکے۔ مدارس بل کے ذریعے تمام مدارس کی
رجسٹریشن اور نگرانی کو یقینی بنایا جائے گا، جس سے کسی بھی غیر قانونی سرگرمی یا انتہا پسندی کے امکانات کو ختم کیا جا سکے گا۔ یہ اقدام ملکی سالمیت اور امن و امان کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔مدارس رجسٹریشن بل کی منظوری پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ اس بل کی بدولت مدارس کو وہ مقام ملے گا جس کے وہ حقدار ہیں۔ دینی مدارس ہمیشہ سے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور سماجی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ مدارس بل نہ صرف ان کے حقوق کا تحفظ کرے گا بلکہ ان کے کردار کو مزید تقویت دے گا۔مدارس رجسٹریشن بل کے نفاذ سے دینی مدارس اور عمومی تعلیمی اداروں کے درمیان فاصلے کم ہوں گے۔ طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم تک رسائی حاصل ہوگی، جس سے معاشرتی ترقی ممکن ہوگی۔مدارس رجسٹریشن بل کے ذریعے دینی مدارس کو ایک منظم ڈھانچے میں شامل کیا جائے گا، جس سے ان کی معاشرتی قبولیت میں اضافہ ہو گا۔ یہ اقدام مدارس کو عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کے پل کے طور پر کام کرنے میں مدد دے گا۔مدارس رجسٹریشن بل کے تحت دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کا امتزاج طلبہ کو معاشی مواقع فراہم کرے گا۔یہ اقدام طلبہ کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔مدارس بل کے ذریعے دینی مدارس کو ایک منظم اور شفاف ڈھانچے میں شامل کرنے سے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر مثبت تاثر ابھرے گا۔ یہ اقدام
پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد دے گا۔کچھ حلقے مدارس بل پر اعتراضات کرتے ہیں اور اسے مدارس کے معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔ تاہم، یہ اعتراضات درست نہیں ہیں کیونکہ مدارس بل کا مقصد مدارس کی آزادی ختم کرنا نہیں بلکہ ان کے حقوق کا تحفظ اور ان کے کردار کو مزید مؤثر بنانا ہے۔اس بل کے تحت مدارس کو ان کی آزادی اور خود مختاری برقرار رکھتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے مدارس بل کی منظوری اور دینی مدارس کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات اور پارلیمانی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ دینی مدارس کو ان کے آئینی حقوق ملیں اور ان کی رجسٹریشن کے عمل میں حائل رکاوٹیں دور ہوں۔ مولانا فضل الرحمن کے علاوہ پروفیسر سینیٹر ساجد میر،مفتی تقی عثمانی،ڈاکٹر حافظ وبدالکریم، قاری حنیف جالندھری اور مفتی منیب الرحمن نے بھی بل کی منظوری کے لئے حکومت کو قائل کیا وہ اس پر صدر کے دستخط کو یقینی بنائے۔اس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ بل کی منظوری پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ بل نہ صرف دینی مدارس کے حقوق کا تحفظ کرے گا بلکہ ان کے کردار کو مزید مؤثر بنائے گا۔دینی اور عصری تعلیم کے امتزاج کے ذریعے طلبہ کو معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ مدارس بل کے نفاذ سے نہ صرف مدارس کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ معاشرے میں امن و امان، ترقی، اور خوشحالی کے نئے دروازے کھلیں گے۔ مدارس بل کا یہ اقدام ایک محفوظ، مستحکم، اور ترقی یافتہ پاکستان کی جانب ایک اہم قدم ہے۔