میرا دورۂ سیالکوٹ چیمبر

  میرا دورۂ سیالکوٹ چیمبر
  میرا دورۂ سیالکوٹ چیمبر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

24دسمبر کی صبح میں نے سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے ہمراہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ کیا۔ مجھے اپنے قارئین کو بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے جناب کاکڑ صاحب کو اپنے تھنک ٹینک آن اکانومی کا صدرمقرر کر دیا ہے تاکہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے ان کے تجربے اور توانا آواز سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ جناب کاکڑ صاحب ان دنوں پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کے دورے کر رہے ہیں اور نوجوان نسل سے ڈائیلاگ کرکے ان میں پیدا ہو جانے والی مایوسی کے خاتمے کا مشن اپنائے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر گوہر اعجاز اور میری خواہش پر انہوں نے فیڈریشن کے تھنک ٹینک کی نمائندگی کا بیڑہ بھی اُٹھا لیا ہے، جس پر پاکستان بھر کی بزنس کمیونٹی بالعموم اور ایف پی سی سی آئی بالخصوص ان کی مشکور ہے۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے روحِ رواں شیخ ریاض اور ان کے ساتھیوں نے ہمارا پُرتپاک استقبال کیا اور سیالکوٹ شہر کے نامور ایکسپورٹروں سے ملاقات کا ایک موقع فراہم کیا۔ وہیں پر میں سیالکوٹ چیمبر کی قیادت کے ساتھ مل کر یو بی جی کے پلیٹ فارم پر قائم کردہ چارٹر آف اکانومی گروپ کی میٹنگ بھی چیئر کی، جس کے لئے پشاور سے سنیٹر نعمان وزیر اور ایف پی سی سی آئی کراچی سے میاں زاہد حسین سمیت اہم کاروباری اذہان آن لائن موجود تھے۔میٹنگ کے اختتام تک جناب انوارالحق کاکڑ سیالکوٹ یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کر کے پہنچ گئے تو ہم نے ان کو سیالکوٹ چیمبر میں خوش آمدید کہا جس کے بعد چیمبر کے میٹنگ ہال میں باقاعدہ اجلاس کا انعقاد ہواجو بہت بھرپور تھا۔ 

ایف پی سی سی آئی 2030ء تک 100ارب ڈالرکی ایکسپورٹ کا ٹارگٹ لے کر چل رہی ہے۔اگر حکومت سیالکوٹ کی ایکسپورٹ کمیونٹی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر دے تو سیالکوٹ شہر سے ہونے والے دو سے اڑھائی بلین ڈالر کی ایکسپورٹ بڑھ کر 10ارب ڈالر ہو سکتی ہے۔ایف سی سی آئی نے حال ہی میں ڈسٹرکٹ اکانومی کا تصور دیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کے ہر ڈسٹرکٹ کی پیداواری صلاحیت کے مطابق وہاں کی اکانومی کو فروغ دینا ہے۔ ایف پی سی سی آئی سیالکوٹ کے ایکسپورٹروں کے مسائل کے حل کے لئے اسی تصور کے تحت کام کرے گی اور ان کے مسائل کے حل کے لئے حکومت اور ایس آئی ایف سی کے پاس جائیں گے اور جہاں کہیں بھی ایڈووکیسی کی ضرورت پڑی، کریں گے اور سیالکوٹ شہر سے10ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کا خواب شرمندہ تعبیر کرکے رہیں گے۔ 

میں تو سیالکوٹ شہر کے ایکسپورٹروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اتنے برے حالات میں بھی اتنے اچھے نتائج دے رہے ہیں، کیونکہ پاکستان میں دنیا کی مہنگی ترین بجلی ہے، دنیا کا سب سے اونچا ٹیکس ریٹ ہے، بینکوں کی جانب سے ہوشربا مارک اپ چارج کیا جاتا ہے، حکومتی ادارے صرف تنگ ہی نہیں کرتے،بلکہ لوٹ کھسوٹ پر اترے ہوئے ہیں، ایف آئی آر کاٹی جاتی ہیں، کاروباری برادری کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری کھڑی ہے اور ایکسپورٹ کرکے ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ کمارہی ہے۔ سیالکوٹ اپنے منہ سے کہہ رہا ہے کہ یہاں سے 10ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے بشرطیکہ حکومت انہیں سپورٹ کرے۔ 

دنیا میں کہیں بھی ایکسپورٹ انڈسٹری کو ٹیکس نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ تو ملک کو ڈالر کماکر دیتی ہے۔ ایکسپورٹر تو ملک میں روزگار کے ذرائع پیدا کرتے ہیں۔ جب وہ ڈالر کماکر ملک میں لاتی ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ ملک کو ہی ہوتا ہے کہ وہ ڈیفالٹ ایسے خطرات سے بچا رہتا ہے اور اس کی بین الاقوامی ساکھ قائم رہتی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ حکومت کو سارے کام چھوڑ کر سیالکوٹ کی ایکسپورٹ کمیونٹی کو سپورٹ کرنا چاہئے،ایک دفعہ تواسلام آباد اپنے سیالکوٹ پر اعتماد کرکے دیکھے،یہاں کی بزنس کمیونٹی پر اعتماد کرے، سیالکوٹ میں اس قدر پیداواری صلاحیت ہے کہ ملک کے دلدر دور ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی بھی باہر سے آکر پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا،اگر معجزے رونما ہونے ہیں تو وہ سیالکوٹ سمیت پاکستان کے ہر شہر کی بزنس کمیونٹی ہی کرسکتی ہے۔ 

سیالکوٹ کے ایکسپورٹروں کے بے حد تحفظات ہیں، جن کا فی الفور تدارک ضروری ہے۔ حکومت کاروباری سہولیات کی بات تو کرتی ہے، لیکن اس کو عملی طور پر لاگو کرنے سے ہچکچاتی رہتی ہے۔افسوس کی بات ہے کہ ایکسپورٹروں کو فکسڈ ٹیکس ری جیم سے نکال کر نارمل ٹیکس ری جیم میں ڈال دیا گیا ہے، جس سے سیالکوٹ کے ایکسپورٹر بددل ہیں۔ ڈسٹرکٹ سیالکوٹ 100فیصد ایکسپورٹ ڈسٹرکٹ ہے، سیالکوٹ چیمبر کے24000 سے زائد ایکسپورٹنگ ممبر ہیں، یہ شہر ہر ماہ 800سے زائد نئے ایکسپورٹر پیداکرتا ہے،جو سیالکوٹ چیمبر سے رجسٹر ہوتے ہیں۔یہاں کی بزنس کمیونٹی نے اپنا ایئرپورٹ اور اپنی ایئرلائن کھڑی کردی ہے۔سیالکوٹ چیمبر سے رجسٹر ہونے والے نئے بزنس مین اپنا این ٹی این بنواتے ہیں اور ٹیکس گزار بنتے جارہے ہیں۔اس شہر کے ایکسپورٹر ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، یہ الگ بات کہ ان کی سانس پھول رہی ہے، کیونکہ بزنس کمیونٹی کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، ایکسپورٹروں پر ٹیکس کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ان کے لئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان حالات میں وہ اپنے کاروبار کیونکر چلا سکتے ہیں۔ 

اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہماری سرکار کی ایکسپورٹ انڈسٹری سے متعلق اپنی انڈرسٹینڈنگ کو بڑھائے۔ سرکار کو سمجھنا چاہئے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری ایک مختلف قسم کی انڈسٹری ہوتی ہے جس کی مثال ریس کے گھوڑے کی ہوتی ہے،اسے تانگے سے جوت کر اس پر بوجھ لاد کر عالمی سطح پر ایکسپورٹ مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس فیلڈ میں ایک ایک امریکی سینٹ کی اہمیت ہوتی ہے اور گلوبل مارکیٹ میں مقابلے کی فضاء میں اپنی پراڈکٹ کو سنبھالا دینا پڑتا ہے۔ سیالکوٹ شہر 1500 سے 2000فیصد ویلیو ایڈیشن کررہا ہے،جس کے پیچھے وہاں کے ماہر کاریگروں کی محنت ہے جو اپنا خون پسینہ بہا کر ایسی پراڈکٹ تیار کرتے ہیں جن کی عالمی منڈی میں مانگ ہے۔ سیالکوٹ شہر میں اس قدر روزگار پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر سے مزدور طبقہ وہاں پہنچتا ہے اور محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ اس شہر کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں تو سیالکوٹ چلے آئیں اور محنت کریں، بہت جلد آپ پیسے والے ہو جائیں گے۔یہ مواقع سے بھرپور شہر ہے۔ سیالکوٹ صرف دس لاکھ آبادی کا شہر ہے مگرپاکستان کی ایکسپورٹ میں 10فیصد حصہ اس شہر کا ہے۔ 

افسوس کی بات ہے کہ حکومت نے ایکسپورٹ سیکٹر کو بھی ریونیوجنریشن کا ذریعہ بنالیا ہے،حالانکہ یہ فارن ایکسچینج جنریشن کا ذریعہ ہے۔ اس نکتے کی طرف حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ سیالکوٹ شہر کے ایکسپورٹروں کو سُکھ کا سانس مل سکے۔ 

٭٭٭٭٭

            

مزید :

رائے -کالم -