کسان ڈے: قوم کے گمنام ہیروکسانوں کا خراج تحسین
اگر ہم پاکستان کے زرعی منظرنامے پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک ایسی قوت موجود ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور یہی قوت ملک کی معیشت کو چلا رہی ہے، یہ قوت ہمارے ملک کے کسان ہیں۔ یہ کسان ہمارے وہ گمنام ہیرو ہیں جنہوں نے اپنی انتھک محنت سے نہ صرف فصلیں لگائی بلکہ ہمارے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا اور ملک کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی بے پناہ قربانیوں اور غیر متزلزل جذبے کو تسلیم کرتے ہوئے فاطمہ فرٹیلائزر نے 2019 میں 18 دسمبر کو کسان ڈے منانے کی تجویز پیش کی اور انکی حوصلہ افزائی کا آغاز کیا۔یہ دور اندیش اقدام پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے جب کسانوں کو ان کے مسائل اجاگر کرنے، ان کی خدمات کا اعتراف کرنے اور سراہنے کے لئے ایک خصوصی پلیٹ فارم فراہم کیا گیا ہے۔ فاطمہ فرٹیلائزر نے قومی سطح پر کسان ڈے کو متعارف کرکے ایک جرات مندانہ خیال کو ایک پائیدار روایت میں تبدیل کیا۔ آج، یہ دن ایک اہم موقع ہے جو کسانوں کی ہمت کوسلام کرتا ہے، ان کے خدشات کو فعال انداز سے سامنے لاتا ہے، اور اپنی خدمات کے ذریعے قوم کا فخر بڑھاتا ہے۔کسان ڈے کے خیال سے لیکر حکومتی سطح تک کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ فاطمہ فرٹیلائزر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والوں، یعنی کسانوں کو بااختیار بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ زراعت کا پاکستان کی جی ڈی پی میں 24 فیصد حجم ہے، یہ شعبہ لاکھوں لوگوں کے معاش کو برقرار رکھتا ہے، بلاشبہ کسان ملک کے معاشی ڈھانچے میں ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کی خدمات کو کم اہمیت ملتی ہے، اور ان کی جدوجہد میں موسمیاتی تبدیلی سے لے کر مالی رکاوٹوں تک شامل ہیں جنہیں شاذ و نادر ہی جلدی حل کیا جاتا ہے، حالانکہ وہ اسکے حقدار ہیں۔فاطمہ فرٹیلائزر کا اقدام محض علامتی نہیں ہے بلکہ کسانوں کی خدمات کو اجاگر کرنے کا عملی اقدام ہے۔کسان ڈے کے ذریعے کمپنی نے پانی کی قلت، کاشتکاری کے فرسودہ نظام جیسے اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ جس پر اسٹیک ہولڈرز، پالیسی سازوں اور کسانوں کو عملی اصلاحات سامنے لانے کے لئے اکٹھا کیا ہے۔ کسانوں کی خدمات کے اعتراف میں کسان ڈے نے نہ صرف انکے حوصلے بلند کئے ہیں بلکہ جدید، پائیدار زرعی طریقوں کی طرف منتقلی کی بھی ترغیب دی ہے۔ہر کسان کے پاس اپنی ہمت، صبر اور امید کی کہانی ہے۔ چاول کا ہر دانہ، روٹی اور پھل کا ٹکڑا مشکل حالات میں مہینوں کی کمر توڑ محنت کی نمائندگی کرتا ہے۔ کسان غیر یقینی موسم، بڑھتی ہوئی لاگت اور محدود وسائل کا سامنا کرتے ہیں، پھر بھی وہ اپنے مشن پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ اس جدوجہد کے باوجود، انہیں اکثر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ فاطمہ فرٹیلائزر کی جانب سے کسان ڈے کو سرکاری سطح پر منانے سے متعلق کاوشوں نے اس بیانیے کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے، جس سے کسانوں کی قربانیوں اور خدمات کو بے حد اہمیت حاصل ہوئی ہے۔جیسا کہ ہم چھٹا کسان ڈے منا رہے ہیں، یہ اقدام صرف انکی ستائش منانے سے کہیں زیادہ اہم بن چکا ہے۔ یہ زرعی اصلاحات کی تحریک بن گئی ہے، جس میں اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ زرعی شعبے کی ضروریات کو ترجیح دیں۔ اس حوالے سے فاطمہ فرٹیلائزر قائدانہ انداز سے ٹیکنالوجی کے انضمام کو فروغ دے رہا ہے، زرعی پالیسی میں تبدیلیوں کو اجاگر کر رہا ہے، اور کسانوں کو جدید سامان اور طریقوں کے ساتھ بااختیار بنا رہا ہے۔ اس طرح کی کاوشیں زرعی شعبے کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لئے اہم ہیں اور یہ اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ کسان مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔کسانوں کی ستائش سے بڑھ کر کسان ڈے ایک وسیع تر وژن کی نشاندہی کرتا ہے: یعنی، ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھانا جو اپنے کسانوں کی قدر کرتا ہے اور ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان کے پاس وہ وسائل اور مواقع دستیاب ہوں جن کی بدولت وہ ترقی کرسکیں۔ مسلسل حمایت اور مشترکہ اقدامات کے ذریعے پاکستان نہ صرف قوم کا پیٹ بھرنے والے ہاتھوں کو عزت دے سکتا ہے بلکہ اپنے زرعی شعبے کے لیے ایک پائیدار اور مساوی مستقبل کی تعمیر بھی کر سکتا ہے۔ہمارے کھیتوں کے گمنام ہیروز ہماری شکر گزاری سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں - وہ ہماری غیر متزلزل حمایت کے حقدار ہیں۔ فاطمہ فرٹیلائزر کا کسان ڈے کے قیام میں قائدانہ کردار اس بات کی روشن مثال ہے کہ کس طرح انکی خدمات کا احساس کرنے سے معاشرے میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ جیسے جیسے یہ قومی روایت مضبوط ہوتی جارہی ہے، یہ کاوش کسانوں میں امید اور ہمت پیدا کررہی ہے اور قوم کو ملکی معیشت اور معاشرے کی تشکیل میں کسانوں کے اہم کردار کی یاد دلا رہی ہے۔