قسط نمبر 86۔ ۔ ۔شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂنوشاہیہ کی خدمات
دیرینہ رفیق جمعیت تبلیغ الاسلام کے صدر راجہ محمد عارف فوج کے سویلین شعبے میں 14سال تک بطور کلرک ملازمت کے بعد جب راجہ محمد عارف نے 1963ء میں برطانیہ کے لیے ہجرت کی تو ان کے دل میں دولت اکٹھی کرنے کی طمع موجود نہیں تھی۔ وہ محنت مزدوری کرکے روزمرہ کے اخراجات پورے کرتے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو دین کی دعوت و تبلیغ دیتے تھے۔ برطانیہ جانے سے بہت پہلے بھی وہ شریعت اور طریقت کی پابندی کرتے اور اہلسنت کے عقائد کے مطابق میلاد بھی کراتے تھے اور یہی ذوق و شوق برطانیہ میں بھی قائم رکھا ہوا تھا۔ اس دور میں برطانیہ میں کجا کوئی مسجد ہوگی۔ مسلمان مذہب سے بے گانہ تھے اور شعائر اسلامی کی سوجھ سمجھ سے بھی خالی تھی۔ دن رات مشینوں کی طرح کاموں میں جتے رہتے اور اگر فرصت ملتی تو خدائے لم یزل کے حضور نماز ادا کرنے کی بجائے وہ عیاشی میں مبتلا ہو جاتے۔
راجہ محمد عارف کی عمر29سال ہوگی جب ایک روز حضرت سیّدمعروف حسین شاہ عارف نوشاہی ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر تشریف لائے اور راجہ صاحب کی داڑھی دیکھ کر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور اپنے آنے کا سبب بتایا کہ وہ گزشتہ روز ڈبل ڈیکر بس کی چھت پر اپنے ایک ساتھی کے ساتھ فیکٹری جا رہے تھے کہ ان کی نظر راجہ صاحب پر پڑی۔ پیر صاحب ایک مسلمان نوجوان کو داڑھی میں دیکھ کر اپنے ساتھی سے خوشی اور فخر کا اظہار کرنے لگے تو معلوم ہوا کہ یہ داڑھی والا نوجوان پیر صاحب کے ساتھی کا کزن ہے۔ انہوں نے پیر صاحب کو بتایا کہ یہ راجہ محمد عارف ہیں اور دین و طریقت پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ پیر صاحب کا دل برطانیہ میں مسلمان تارکین وطن کی مذہب سے غفلت پر بہت رنجیدہ تھا لہٰذا انہیں راجہ صاحب کی صورت میں اپنا ایک ہم خیال اور پختہ عزم نوجوان نظر آگیا تھا۔ اگلے روز پیر صاحب راجہ محمد عارف کے پاس پہنچے اور کہا ’’میں گمراہ مسلمانوں کو راہ راست پر لانا چاہتا ہوں ۔ کیا آپ میرا ساتھ دیں گے۔‘‘
راجہ محمد عارف نے پیر صاحب کے دست مبارک پر ہاتھ رکھا اور عرض کیا ’’میں حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کا عقیدہ مند ہوں۔ جس طرح آپؒ نے تبلیغ سے رشد و ہدایت کے چراغ روشن کرکے گمراہوں کو تباہ ہونے سے بچایا تھا آپ بھی اسی راہ پر عزم و استقلال سے چلتے ہیں تو میں تن من دھن سے آپ کے ساتھ ہوں گا۔ اگرچہ میں نقشبندی ہوں اور آپ قادری۔ میں عید گاہ شریف کے سلسلہ میں بیعت ہوں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ نسبت اور عشق مصطفیﷺ ہمیں اہل سنت کے عقائد کے مطابق یہاں تبلیغ کا بہترین موقع دیگا۔ ‘‘راجہ محمد عارف نے حضرت سیّد پیر معروف حسین شاہ عارف نوشاہی کے ساتھ دین کی خدمت و تبلیغ کا بیڑہ اٹھایا اور یوں25سال تک وہ پیر صاحب کی قیادت میں ترویج اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہے۔
راجہ محمد عارف سے راقم نے برطانیہ فون پر رابطہ کرکے ان کی پیر صاحب کے ساتھ25برسوں کی رفاقت پر طویل بات چیت کی۔ راجہ صاحب ان دنوں انتہائی علیل تھے لیکن جب پیر صاحب اور دین کے لیے انکی خدمات کا ذکر ہواتو ان کی لزرتی آواز میں توانائی عود آئی۔ ’’میں پیر صاحب کے سفر و حضر کا ساتھی ہوں۔ آپؒ کی تبلیغی، ذاتی، روحانی اور نجی زندگی کے بہت سے معاملات و حالات سے آگاہ ہوں۔ آج بھی ان کی تنظیم جمعیت تبلیغ الاسلام کا صدر ہوں۔ اگرچہ میں 25سال تک پیر صاحب کے ساتھ رہا ہوں مگر پھر اپنی صحت اور بسا اوقات بعض علماء حضرات کے مزاج کی وجہ سے تنظیمی کام نہیں کر سکا تھا مگر پیر صاحب آج کے دن تک بہت سے معاملات پر میرے ساتھ مشورہ فرماتے ہیں۔ پیر صاحب کی شخصیت کے بارے میں مجھ سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔ پیر صاحب میں بہت زیادہ برداشت اور تحمل موجود ہے۔ کئی بار ہم نے ایسا دیکھا ہے کہ کوئی مرید وسالک اپنے مرشدو پیر کے خلاف ایک جائز تنقید بھی نہیں سنتا اور ناقد کو مارنے لگ پڑتاہے۔ مگرپیر سید معروف حسین شاہ صاحب نے بے جا و بجا ہر طرح کی تنقید برداشت کی ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم لوگوں سے برداشت نہ ہوتا مگر پیر صاحب کسی بھی بدتمیزی کرنے والے کے خلاف قدم نہیں اٹھانے دیتے تھے۔ آپ فرماتے کہ اس راہ میں مخالفین اور رکاوٹیں آتی ہیں۔ پیر صاحب شگفتہ مزاج ہیں۔ آپ کے اندر روایتی پیروں کی کوئی بات نہیں ہے۔ چونکہ آپ مبلغ اسلام ہیں اور درس و تدریس کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں لہٰذا پیری مریدی کے روایتی طور طریقے سے گریز کرتے ہیں۔ حضرت برقؒ کے بہت زیادہ مریدین ہیں۔ لیکن حضرت پیر سید معروف حسین شاہ کے بہت کم ہیں۔ آپ صاحب عرفان ہیں۔ آپ میں انا نہیں ہے۔ حالانکہ علماء اور مولوی حضرات کے ساتھ میراکام کرنے کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ کیونکہ مولوی حضرات کسی تنظیم کے تحت کام نہیں کر سکتے۔ ان کے اندر انا اور کئی اور خامیاں بھی میں نے دیکھی ہیں۔ اس لئے میں عموماً پیر صاحب سے عرض کیا کرتا تھا کہ ہم نے جس مقصد کے لیے تنظیم کی بنیاد رکھی ہے اس کو مولویوں کے بغیر چلایا جا سکتا ہے لیکن پیر صاحب کے نزدیک علماء و مولوی حضرات تبلیغی مشن کے لیے بہت ضروری تھے۔ اصل میں پیر صاحب کا منشا دین کی خدمت رہا ہے۔ وہ دنیا کمانے کی فکر میں نہیں رہے۔ لیکن پیر صاحب نے بعدازاں خود دیکھا ہے کہ جن علماء و مولوی حضرات کو دین کی تبلیغ کے لیے وہ برطانیہ لاتے رہے وہ پیر صاحب کے بدترین مخالف بھی ہوئے۔ لیکن پیر صاحب نے تبلیغ کا کام رکنے نہیں دیا۔ پیر صاحب پر سید نوشہ سرکار ؒ کا دست شفقت رہا ہے۔ جس نے بھی آپ کی مخالفت کی یا آپ کو بے حد رنج پہنچایا اس کی مٹی برباد ہوگئی۔ پیر صاحب نے کبھی مخالفین کو جواب نہیں دیا۔ ان کے اندر انکساری و عاجزی ہے۔اللہ نے آپ کی اس اداکو پسندفرمایا اور آپ کے تبلیغی مشن کو اسطرح منوایا کہ آج تاج برطانیہ بھی آپ کی پرامن تبلیغ کو سراہتا ہے۔
(جار ی ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔