وہ پہلے ہونٹوں میں دبی سیٹی بجاتا ہے،دروازے پر کھڑا رہ کر اس وقت تک سبز جھنڈی لہراتا رہتا ہے جب تک گاڑی پوری رفتار نہیں پکڑ لیتی

 وہ پہلے ہونٹوں میں دبی سیٹی بجاتا ہے،دروازے پر کھڑا رہ کر اس وقت تک سبز ...
 وہ پہلے ہونٹوں میں دبی سیٹی بجاتا ہے،دروازے پر کھڑا رہ کر اس وقت تک سبز جھنڈی لہراتا رہتا ہے جب تک گاڑی پوری رفتار نہیں پکڑ لیتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:86
اسٹیشن پر پہنچ کر گارڈ متعلقہ اسٹیشن ماسٹر سے آگے کی پٹری کے حالات کی رپورٹ لیتا ہے اور اپنی گاڑی کے بارے میں غیر معمولی نقائص یا مشکلات کی نشان دہی نوٹ کروا دیتا ہے۔ اگر کسی بوگی میں کوئی خطرے والی بات محسوس کرتا ہے تو اسٹیشن ماسٹر کے تعاون سے دوسرا انجن منگوا کر اس بوگی کو گاڑی سے علیٰحدہ کروا دیتا ہے اور مسافروں کو وقتی طور پر دوسرے ڈبوں میں منتقل کروا دیتا ہے۔ گاڑی کو مقررہ وقت پر چلوانا بھی اس کی ایک بڑی ذمہ داری ہے اس لیے وہ پلیٹ فارم پر کھڑا وقفے وقفے سے اپنی کلائی گھڑی کی طرف تکتا رہتا ہے۔ وقت مقررہ پر وہ پہلے ہونٹوں میں دبی ہوئی سیٹی بجاتا ہے جس کو سن کر پلیٹ فارم پر بکھرے ہوئے مسافر اپنے ڈبوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ انجن ڈرائیور بھی سیٹی کی آواز سنتے ہی پہلا وسل بجاتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد جب گارڈ کو یقین ہو جاتا ہے کہ اسٹیشن پر چہل قدمی کرنے والے تمام مسافر گاڑی میں سوار ہو چکے ہیں تو وہ آخری سیٹی بجا کر بغل میں سے سبز جھنڈی نکال کر لہراتا ہے اور گاڑی کو چلنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ انجن ڈرائیور بھی آخری وسل بجا کر سست رفتار سے پلیٹ فارم پر چل پڑتا ہے جس سے رہے سہے مسافر بھی چھلانگ مار کر اپنے ڈبوں میں سوار ہو جاتے ہیں۔ آخر میں گارڈ بھی اپنے کیبن میں چڑھ آتا ہے اور دروازے پر کھڑا رہ کر اس وقت تک سبز جھنڈی لہراتا رہتا ہے جب تک گاڑی پلیٹ فارم سے نکل کر پوری رفتار نہیں پکڑ لیتی۔
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ گاڑی ایک اسٹیشن سے کلئیرنس لے کر نکلی ہو اور راستے میں خراب ہو کر کھڑی ہو جائے جس سے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو خبردار کرنے کے لیے گارڈ اسسٹنٹ ڈرائیور کے ساتھ مل کر گاڑی سے کچھ دور سرخ جھنڈی پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ رات کے وقت ایسی صورت حال میں وہ دونوں پٹاخے چلاتے ہیں یا روشنی کے گولے چھوڑتے ہیں تاکہ اگر پیچھے کوئی گاڑی آ رہی ہے تو اس کو آگے ہنگامی صورت حال کا کچھ ادراک ہو جائے۔ جب گاڑی وقت مقررہ پر اگلے سٹیشن پر نہیں پہنچتی تو وہاں کا اسٹیشن ماسٹر پچھلے اسٹیشن والوں کو اپنی تشویش سے آگاہ کرتا ہے اور وہ اس پٹری پر مزید کسی گاڑی کا داخلہ بند کردیتے ہیں۔ 
کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ حفاظتی اقدامات اور طریقہ کار معمول کا حصہ تھے تاہم مواصلات کے جدید نظام کی بدولت وہ ڈرائیور یا اسٹیشن ماسٹر سے موبائل فون یا وائرلیس پر براہ راست رابطے میں رہتے ہیں اور ان کو پل پل کی خبر دیتے ہیں جو پچھلے دور میں ممکن نہیں تھا۔ ہر چند کہ یہ قدیم عملیاتی طریقہئ کار اب تحریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھربھی یہ اس لیے بیان کردئیے ہیں کہ قارئین کو پتا چلے کہ ہم کتنا طویل فاصلہ طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔
گو یہ گارڈ کے باقاعدہ فرائض میں شامل نہیں تاہم ریلوے کے محکمے کی اجازت سے یہ کسی ایسے ہالٹ سے سوار ہونے والے مسافروں کو ٹکٹ بھی جاری کردیتے ہیں جہاں معمول کا اسٹیشن یا عملہ نہیں ہوتا۔ لہٰذ اوہاں ٹکٹوں کے اجراء کا بندوبست نہیں ہوتا ہے۔اس ذمہ دار اور بڑی نشست کو حاصل کرنے کے لیے امیدواروں کو ان ہی سخت شرائط اور امتحانوں سے گزر کر آنا  پڑتا ہے جس سے ڈرائیور آتے ہیں یعنی مناسب تدریسی ڈگری اور انجنیئرنگ کا ڈپلومہ اور ساتھ میں والٹن اکیڈمی میں گارڈ کی عملی تربیت کی تکمیل۔ جس کے بعد کم از کم 2 سال کی لازمی اور قطعی ڈیوٹی مال گاڑی کے گارڈ کی حیثیت سے نبھانا ضروری ہے جو بوجوہ محکمہ ریلوے کی سب سے سخت اور ناپسندیدہ ڈیوٹی تصور کی جاتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -