نئے سال کا تحفہ ”اُڑان پاکستان“
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی پائیدار ترقی کے حامل پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبے ”اُڑان پاکستان“ 2024-29ء کا افتتاح کر دیا۔اس پروگرام کے تحت فائیو ایز (Es) کی بنیاد پر اقتصادی ترقی کا حصول یقینی بنانے پر کام کیا جائے گا، یہ پانچ ایز برآمدات (ایکسپورٹس)، ای پاکستان،ماحولیات (انوائرنمنٹ)، توانائی (انرجی)، برابری اور اختیار (ایکولیٹی اینڈ ایمپاورمنٹ) ہیں۔اِس قومی اقتصادی پلان کو۔ وزارت خزانہ اور وزارت پلاننگ کمیشن نے مل کر تیار کیا ہے،اس میں آئندہ پانچ سال کے اہم اہداف طے کر لیے گئے ہیں جس میں 2029ء تک جی ڈی پی کی شرح چھ فیصد،فی کس آمدن 2405 ڈالر، کرنٹ اکاؤنٹ جی ڈی پی کا 1.2 فیصد سرپلس،انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) برآمدات 10 ارب ڈالر، سرمایہ کاری کو جی ڈی پی کا 17 فیصد، برآمدات کو 63 ارب ڈالر اور ترسیلاتِ زر 39.8 ارب ڈالر تک لے جانے کے علاوہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 13.5 فیصد، سرکاری قرضوں کو جی ڈی پی کا 60 فیصد، تعلیم پر جی ڈی پی کا چار فیصد خرچ کرنا شامل ہیں۔ اس پروگرام میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 23.54 مکعب ملین فٹ تک بڑھانے اور اس کے استعمال کی صلاحیت 40 فیصد سے بڑھا کر 70 فیصد کرنا بھی مقصود ہے تاکہ 100 فیصد آبادی کو پینے کے لئے بہتر پانی فراہم کیا جاسکے۔ پلاننگ کمیشن کی دستاویز کے مطابق آئندہ پانچ سالوں میں الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال 25 فیصد تک بڑھایا جائے گا،غربت کی شرح 21.4 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد تک لائی جائے گی،پرائمری سکولوں میں داخلے کی شرح 64 فیصد سے بڑھا کر 72 فیصد کرنے اور ٹوائلٹ کی سہولت کو 68 فیصد سے بڑھا کر 80 فیصد کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہ بھارت کی ترقی کے لئے سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے نواز شریف کے معاشی اصلاحاتی ماڈل پر عمل کیا جس کی وجہ سے ہندوستان آگے چلا گیا، یہاں بدقسمتی سے نواز شریف کی حکومت گرا کر ملکی معیشت کو ڈبو دیا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ٹیکس کم کرنا ہوں گے،اُن کا بس چلے تو وہ ٹیکس 10 سے 15 فیصد کم کردیں تاکہ چوری بھی کم ہو اور صلاحیت میں بھی بہتری آئے، حکومت اور ادارے مل کر کام کر رہے ہیں اِس لیے یہ وقت بھی ضرور آئے گا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ 70 سال میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی تاہم رونے دھونے کا کو ئی فائدہ نہیں، ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا، اشرافیہ کو کچھ قربانی دینا ہو گی،آج بھی میثاق معیشت پر اتفاق کر لیا جائے تو آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پی ڈٰی ایم کی گزشتہ حکومت سنبھالی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تاہم اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ملک بچانے کے لئے سیاست کی قربانی دیں گے، معاشی مجبوریوں کی وجہ سے مجبوراً آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ لینا پڑا تاہم یہ آخری پروگرام ہو گا، دنیا کی ترقی کا پہیہ گھمانے میں نوجوان اہم کردار ادا کرتے ہیں، نوجوانوں کو بہترین تعلیم اور تربیت دی جاتی تو پاکستان بھی ترقی کر رہا ہوتا وہ دن دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا مقام حاصل کر لے گا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب ملک ایک بار پھر معاشی بہتری کی جانب گامزن ہے، مہنگائی پانچ فیصد سے کم ہوگئی، زرِمبادلہ اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا ہے، آئی ٹی برآمدات میں 34 فیصداضافہ ہوا ہے۔تقریب سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی خطاب کیا اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلانے کے عزم کا اظہار کیا۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ سال کو الوداع کہتے ہوئے، اس کے آخری دن ”اُڑان پاکستان“ منصوبے کا افتتاح کیا،نئے سال کی آمد پر پانچ سالہ منصوبہ دیا ہے، حکومت کو بنے دس ماہ سے زائد ہو چکے ہیں، اس کی کوششوں سے ملکی معیشت کو تھوڑا بہت سہارا تو مل چکا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ختم ہو گیا ہے، اب اس نے ایک ویژن، ایک منصوبہ عوام کے سامنے رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد ایسے ہی منصوبہ بندی ہوتی تھی، جمع خرچ کا حساب کتاب ہوتا تھا، حکومت اس سے جڑی رہتی تھی،پاکستان ترقی کا سفر بھی طے کر رہا تھا، لیکن پھر 1965ء میں حالات خراب ہوئے اور1971ء کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئی، نظام ایڈ ہاک پر چلنے لگا، اخراجات اور آمدن میں توازن سخت خراب ہو گیا۔پھر میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو موجودہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے دس سال کا ویژن پیش کیا تھا جو کہ پھر پرویز مشرف کے مارشل لاء کی نظر ہو گیا، ملک دوبارہ ہچکولے کھانے لگا۔ اب ایک مرتبہ پھر پانچ سال کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اہداف مقرر کئے ہیں، بعض لوگ اِس سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ ایسے ہی اہداف طے کئے جانا چاہئیں تاکہ ان کے حصول کے لئے بھرپور محنت کی جائے،جبکہ بعض کے نزدیک یہ منصوبہ قابل ِ عمل نہیں ہے، ان کی نظر میں اہداف حقیقت سے دور ہیں اور یہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ کوئی کچھ بھی کہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ منزل کا تعین تو کیاگیا ہے، اب پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اس تک پہنچنے کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔معاشی طور پر ملک کو مستحکم کرنے اورکسی بھی منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے کے لئے قیادت کا تسلسل ناگزیر ہے،اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو وہ اپنی مدت پوری کرے اور جمہوری طریقے سے اقتدار منتقل کیا جائے،میاں نواز شریف جب اقتدار میں تھے تو ان کا پلان تھا کہ وہ ڈی نیشنلائز کریں گے، ملک میں سرمایہ کاری بڑھائیں گے، صنعتوں کی ترقی کے لئے کام کریں گے لیکن پھر ان کے دورِ حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا،منصوبے وہیں رہ گئے، اس کے برعکس من موہن سنگھ نے ان اصلاحات پر عمل کیا اور آج بھارت کس قدر آگے بڑھ گیا ہے۔ حکومت نے اقتصادی پلان دیا ہے جس میں اس نے ایکسپورٹ لیڈ ترقی پر زور دیا ہے اور اِسی میں عافیت ہے، خرچ اور آمدن میں توازن بھی ازحد ضروری ہے۔اب اُمید اور خواہش یہی ہے کہ ”اُڑان پاکستان“ کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، اس کو کامیاب بنانے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد، ہر ادارے پر یکساں عائد ہوتی ہے۔