پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی سفر اور مستقبل

   پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی سفر اور مستقبل
   پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی سفر اور مستقبل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کچھ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات نے اعلیٰ درجے کی ذہانت،فطانت اور عقل و حکمت عطا کی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ حالات و واقعات پر اتنی عمیق نظر رکھتے ہیں کہ ان کے نجومی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ایسی ہی شخصیات میں سے میرے ایک دیرینہ اور پڑھے لکھے دوست انجینئر فاروق مرزا ہیں۔ ویسے ہیں تو وہ سول انجینئر لیکن پاکستان کی سیاست کی انجیئرنگ کے پیچ و خم سے بھی خوب واقف ہیں۔وہ جب بھی گفتگو کرتے ہیں بڑے نپے تلے انداز میں کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو اعداد و شمار اور حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ انھوں نے کسی صحافی دوست کے کہنے پر 2017 میں بانی پی ٹی آئی کی تحریک انصاف پر ایک تجزیہ لکھا تھا جو بوجوہ کسی اخبار میں جگہ نہ پا سکا۔ چند دن قبل انھوں نے اس تجزیے کی ایک کاپی مجھے بھی عنایت فرمائی۔اس کے مندرجات پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انھوں نے بانی پی ٹی آئی کے بارے میں سات سال قبل جو کچھ لکھا وہ حرف بحرف سچ ثابت ہوا۔ان کے تجزیہ کے مندرجات قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ جنہیں پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گاکہ مرزا صاحب کی  پیشین گوئیوں میں کس حد تک صداقت کا عنصر پایا جاتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ”پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی سفر 20 سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔اس تحریک کے روح رواں اور بانی عمران خان ہیں۔جب ہم تحریک انصاف کی جدوجہد اور سیاسی سفر کا جائزہ لیں گے تو انصاف سے ہی کام لینا پڑے گا۔پاکستان تحریک انصاف کی روایتی سیاست قیام پاکستان کے بعد قائم ہونے والی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرح فرد واحد کے حصار میں ہے۔شروع میں پاکستانی سیاست میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا جان کر بے شمار ذہین، دانش مند اور نوجوانوں نے، جو پاکستان سے بے لوث محبت کرتے  تھے   ا ور دوسری سیاسی جماعتوں کی دیمک زدہ اور فرسودہ سیاست سے تنگ آئے ہوئے تھے،ان سب نے بے حد جوش و خروش سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لیکن۔۔۔ون مین شو کی چمک نے ان کی آنکھیں خیرہ کر دیں تو وہ خامشی سے علیٰحدہ ہو گئے۔اور ان کا تمام جو ش و خروش بے توجہی کی ریت میں بارش کی طرح جذب ہو گیا۔پارٹی کے کچھ ارکان باغی ہو گئے اور کچھ دل برداشتہ۔پارٹی کے سربراہ ایک ہیرو،کھلاڑی اورپلے بوائے کے جالے میں جکڑے ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کویہ گمان ہے کہ وہ کرشمہ ساز ہیں۔ انھوں نے نیا پاکستان بنانے کا  نعرہ لگا کر سوچا کہ یہ نعرہ بھٹو صاحب کے ”روٹی، کپڑا اور مکان“کی طرح مقبول ہو گا۔لوگوں کے دلوں میں گھر کر لے گا۔اور پاکستان کے لوگوں کی قسمت بدل دے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

وہ مزید لکھتے ہیں:”جناب عمران خان نے  شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے شاندار فلاحی منصوبے مکمل کر کے ایک نئی جہت اور روایت کا آغاز کیا لیکن سیاست میں ان فلاحی کاموں کا تواتر سے ذکر کرنے سے ان بے حد خوبصورت کاموں کی مٹی پلید کرنے میں ان کے سیاسی حریفوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔دنیا کے تمام نامور لیڈروں نے کبھی بھی اپنے فلاحی کاموں کا پرچار نہیں کیا۔ وہ اپنے منھ میاں مٹھو نہیں بنے بلکہ اپنی ذات کی نفی کر کے عروج حاصل کیا۔شہرت، ہیرو ازم اور قائد بننے کا سحر انسان کو تکبر میں مبتلا کر دیتا ہے اور تکبر انسان کو بلندی سے پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جناب عمران خان نے ایک قائد کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو بلندیوں سے ہمکنار کیا لیکن ان کے لا ابالی پن نے کئی بار انھیں اس بلندی سے نیچے پٹخ دیا جس کا ادراک انھیں نہ ہے اور نہ ہی ہو گا۔ان کی ذاتی زندگی مکمل طور پر ناکام ہے۔بہت سی افسانوی اور رومانوی کہانیوں کے بھوت ان کی ذات سے لپٹے ہوئے ہیں۔ جن سے اگر وہ جان چھڑانا بھی چاہیں تو بھی ایک نیا بھوت اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اگرچہ کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی کے سود وزیاں کا حساب کتاب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے لیکن جب کوئی شخص کسی قوم کا رہبر و راہنما بننا چاہے تو اس کی ذاتی زندگی بھی نہایت صاف و شفاف اور بے داغ ہونا نہایت ضروری ہے۔اب تک پاکستان کی سیاست خرید و فروخت، بلیک میلنگ اور مکرو فریب کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔تحریک انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت میں نہ سیاست ہے نہ جمہوریت۔تحریک انصاف بھی بتدریج اسی دلدل میں اترتی جا رہی ہے۔کسی رہنما کا اپنی ذات سے انصاف نہ کرنے سے بڑی بے انصافی کیا ہو سکتی ہے؟ یہی بے انصافی تحریک انصاف کا اب تک کا سفر اور مستقبل ہے۔“ 

مرزا صاحب چونکہ بانی پی ٹی آئی کے بچپن کے ساتھی ہیں، ان کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے رہے اوروہ زمان پارک میں ان کے خاندان کے بہت سے گھروں کی ڈیزائننگ اور تعمیر بھی کر چکے ہیں۔ اس لیے انھوں نے آج سے سات سال قبل جو کچھ لکھاآج وہ من و عن سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب عمران خان صاحب نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو بہت سے محب وطن پاکستانی انھیں نجات دہندہ اور جمہوریت کا چیمپین سمجھ کر ان  کے ساتھ قدم ملا کر کھڑے ہو گئے۔ لیکن ان کے غیر جمہوری رویے اور آمریت پسندانہ پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔بانی پی ٹی آئی کے اپنے سابقہ بیانات کے برعکس اقتدار کے حصول کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں سر رکھنے پر ان کے بہت سے قریبی ساتھیوں نے احتجاج کیا لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی تو بہت سے جمہوریت پسند ارکان نے ان سے راہیں جدا کر لیں۔رہی سہی کسر ان کی طرف سے الیکٹیبلز کو پارٹی میں جگہ دینے نے نکال دی۔انھوں نے اسے مخالفین کی وکٹیں گرنے کا نام دیا لیکن جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو یہی الیکٹیبلز ان کی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا کر متبادل کشتی میں جا بیٹھے۔ جب عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یقینی نظر آئی تو انھوں نے غیر جمہوری رویہ اپناتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سے غیر آئینی رولنگ جاری کروا کر کرسی سے چپکے رہنے کی ناکام کوشش کی۔  پھرکرسی کے چھن جانے کے بعد اپنے محسنوں کے خلاف زبان درازی کا سلسلہ شروع کر دیاجو آج تک جاری و ساری ہے۔جس کا انھیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔اگر وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے اور طاقتور حلقوں اور اپنے محسنوں کے خلاف محتاط رویہ اپناتے تو شاید وہ آج جیل میں نہ ہوتے اور 2024 کے انتخابی نتائج بھی مختلف ہوتے۔لیکن وہ اپنے لا ابالی پن اوربچگانہ حرکتوں سے اپنی مشکلات میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ کبھی  9۔مئی اور کبھی 24۔نومبر کی حرکت کرکے تحریک انصاف کو ناکامیوں کی دلدل میں دھکیلتے جا رہے ہیں۔جب تک وہ  اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے ان کی مشکلات میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوتا رہے گا۔اور تحریک انصاف کا مستقبل تاریک ہوتا چلا  جائے گا۔ 

مزید :

رائے -کالم -