جنت سے نکلے، سسُرال میں اٹکے
حوا اور آدم کا نباہ اس لیے ہو گیا کہ دونوں کا سسُرال نہ تھا۔ ایک کا بھی نہ ہو تو زندگی اچھی گذر جاتی ہے۔ ایک کا بھی ہوتا تو ساری عمر وضاحتیں دیتے گذر جاتی کہ غلطی بابا جی کی ہے یا اماں جی کی۔ ہمارے اجداد جنت سے نکل کرسسُرال میں اٹک جاتے تو شاید آج انسانیت، نسوانیت اور مردانیت کی تاریخ مختلف ہوتی۔ روایات کے مطابق سسُرال فری جوڑا جنت سے نکل کرسری لنکا پہنچا تو اسے یورپ،امریکہ،دبئی جانے کی تمنا نہ ہوئی۔ مزے کیئے کیونکہ سسُرال کی ٹینشن نہ تھی۔”کاچھا“ جی اول فول باتیں کررہے تھے۔ عجیب انسان تھے۔ان کا پورا خاندان ہی عجیب و امیر تھا، اپنی ہی روایات کا اسیر تھا۔روایت کے مطابق”کاچھا“صاحب کے ساٹھ سالہ بزرگ کی چالیس سالہ زوجہ پرلوک سدھاری تو تعزیت کے لیئے آنے والے خواتین و حضرات کوفرماتے اُن کی مغفرت کی دُعا کریں اور میری درازی عمر کی دعا دیں کہ اللہ تعالی بہترین نعم البدل عطا فرمائے اور جلد از جلد عطا فرمائے۔راوی بیانی ہے کہ بزرگ نے اپنی دُعا کی قبولیت کے لیئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ نعم البدل تلاش کیا اورانتہائی برق رفتاری سے کیا۔ نعم البدل کو گھر لا ئے،قل کے کھانے اُسی نے بنائے، برادری والے شرمائے، بزرگ نہ گھبرائے،پھرتے تھے اترائے اترائے۔ عقدثانی سے دل کو قرار آیا، طبیعت میں نکھار آیا، جانے والی اور آنے والی دونوں پر پیار آیا، انسانیت پہ اعتبار آیا اور بار بار آیا کیونکہ اگلا نعم البدل بھی انہوں نے قلوں سے پہلے ہی تلاش کیا۔ بزرگ ایک سو دو سال کی عمر تک زندہ رہے۔ زندگی بھر قلوں سے پہلے گلوں کا اہتمام کرنے کی روایت نبھاتے رہے۔
روایت تو ”کاچھا“جی کے بھائی صاحب نے بنائی بھی،نبھائی بھی۔ آبائی شہر چھوڑ کر بہاول پور جابسے۔ وہیں ملازمت کرلی۔ جب بھی ٹرانسفر کی نوبت آنے لگتی تو کسی اور پوسٹ پر چلے جاتے،شہر وہی رہتا۔ کہتے، بہاولپورزمین پرجنت کا نام ہے،یہیں قیام ہے، سب کو دعوت عام ہے، ملتا بہترین طعام ہے، چاہے صبح ہے یا شام ہے۔ شادی کے بعدبھی خیالات یہی رہے۔ سسُرال کو سسُرائیل کہتے۔زوجہ کی غیر موجودگی میں اسرافیل اورعزرائیل سے تشبیہ دیتے۔ طویل عرصے تک جنت میں رہے۔ ایک دن جد امجد کی طرح جنت سے نکالے گئے۔ شومئی قسمت، اگلی پوسٹنگ سسُرائیل نگر ہوئی۔ رائے لی جاتی تو شایدانٹارکٹکا یا سائبریا جانے کو ترجیح دیتے۔سسُرال یا ٹرانسفر سے کس کو رستگاری ہے۔ آج ہم کل تمہاری باری ہے،سسُرائیل نگرمیں ہر پل بھاری ہے، کاری ہے، آری ہے، نری خواری ہے۔ زمانہ قدیم سے جواں مردوں نے سسُرال پر اپنی عمر واری ہے، بھگتی مارا ماری ہے، ہر کوئی بیگم کے در کا بھکاری ہے اگر چہ سمجھتا سسُرالیوں کو مداری ہے، کہتا ان کے ہر کام کو عیاری ہے، سسُرال کے شہر افسر ہونا بھی عجب ذمے داری ہے۔ بھائی صاحب کو روز ایک کثیر تعداد سسُر اور سالا صاحبان کے حوالے سے ملنے آجاتی۔ زیادہ تر افراد کے کام محکمہ مال سے متعلق ہوتے، نامہ اعمال کی شامت ہوتے، قیامت ہوتے، نری ندامت ہوتے۔ بھائی صاحب خندہ پیشانی سے سب کو سنتے، گھر جا کر اپنا سر دھنتے اور دھنتے ہی رہتے۔ زوجہ محترمہ سے مگر کچھ نہ کہتے، چپ ہی رہتے۔ مگر کب تک، ایک دن صبرکا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میرٹ کی بات کی تو سُسرال والے کہنے لگے کہ افسر انگریز ہوگیا، بہت تیز ہوگیا۔ سُسرال سے تعلق نبھاتے نبھاتے اب خود سے تعلق نبھانے کا مرحلہ آن پہنچا۔”کاچھے“کو بلایا،گلے لگایا، اپنا دکھڑا سنایا، ”کاچھے“نے حل بتایا،بھائی نے آزمایا، گھر میں طوفان آیا، بیگم خود بھی روئی اور ان کو بھی رُلایا۔ بچوں نے بھی اودھم مچایا، سمجھوتے پہ اُکسایا، صاحب سے کچھ بن نہ پایا، پرانی روٹین سے باقی جیون بتایا۔”کاچھا“ صاحب کو کاہنہ بھیج دیا۔”کاچھا“صاحب کاہنہ آکر امیر و غریب سے عجیب و غریب ہوگئے۔ سارا خرچہ بھائی اٹھاتا تھا،والد صاحب سے ”کاچھا“ جی نے توڑا ناتہ تھا، اب بھائی بھی منہ نہ لگاتا تھا، ”کاچھا“ ہر دم یہی گنگناتا تھا: کاچھا ان کاہنہ، پلے دھیلا نہ آنہ: ”کاچھا“ ایک دفعہ پہلے بھی کاہنہ آچکا تھا۔وجہ والد صاحب کا جلال تھا، ”کاچھے“کی زبان کا کمال تھا۔والدہ فوت ہوئیں تو”کاچھا“ نو جوان تھا،شرارتی شیطان تھا۔والد محترم سنجیدہ تھے، رنجیدہ تھے۔ لوگ پُرسہ دینے آتے، گلے لگاتے، بتاتے، میں آ پ کے سسر کا دوست ہوں۔ جب پانچ چھ افراد نے یہی جملہ دہرایا، ”کاچھے“ کے سر میں نہ جانے کیا سودا سما یا، والد صاحب سے استفسار فرمایا:-
یہاں جو بھی آتا ہے وہ کہتا ہے،میں آپ کے سسر کا دوست ہوں۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ میں آپ کا ہونے والا سُسر ہوں۔ والد محترم کاچھے کی بات سن کرسوچ میں پڑ گئے۔کاچھے کو کاہنہ بھیجا۔ کاچھے کی محبوبہ کے گھر کا رخ کیا۔ یتیم دوشیزہ تھی دولت حسن سے مالا مال، والدہ کو تھا اس کی شادی کا خیال، تھوڑا بہت بنانا چاہتی تھی مال، بُزرگ نے بچت دی نکال، ہو گئے پھر سے صاحب اہل و عیال، لگوا لیئے نئے بال، پھر نہ آئے”کاچھے“ اور اس کے بہن بھائیوں کا خیال، نئی بیگم تھی صاحب جمال، کرتے رہے وصال، حتی کہ ہوگیا انتقال۔
اب کاچھا جی دوبارہ کاہنے میں تھے۔اماں حوا اور بابا آدم کی فکر پھر سے دامن گیر تھی۔ جب سسُرال نہیں تھا تو پھر اماں حوا اور بابا آدم شیطان کے بہکاوے میں کیوں آگئے؟غلطی کیوں کر بیٹھے؟ جب نُو سسُرال پھر کیسا ملال؟اگر آپ حامل سسُرال ہیں تو آپ کی خاموشی ہی آپ کا جواب ہے ورنہ آپ”کاچھا“ صاحب کی رہنمائی فرمائیں۔ ازلی اور اصلی گتھی سلجھائیں۔
جو اُلجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
٭٭٭