نئے سال میں کچھ نیا بھی ہو گا؟

  نئے سال میں کچھ نیا بھی ہو گا؟
  نئے سال میں کچھ نیا بھی ہو گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئے سال کی مبارکبادیں دینے اور سمیٹنے کے بعد اب اس پر بھی غور ہونا چاہئے کہ نئے سال میں کچھ نیا کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ایسا تو نہیں ہو سکتا ایک دن ہم اچانک اُٹھ کے دیکھیں تو سب کچھ بدل چکا ہو۔کوئی الٰہ دین کا چراغ ابھی اس معجزے کے لئے ایجاد نہیں ہوا۔ہاں البتہ اپنی اپنی سطح پر کوئی ایک تبدیلی بھی کر لی جائے تو ممکن ہے کروڑوں تبدیلیاں مل کر ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن جائیں۔کہنے لگے،جو معاشرہ برائیوں کی بڑی آماجگاہ بن چکا ہو اُس میں کوئی ایک بات کیسے تبدیلی لا سکتی ہے۔میں نے اصرار کیا پھر بھی کوئی ایسی بات تو ذہن میں آئی ہو گی، جو بڑی برائیوں کو  جنم دے رہی ہے۔ سوچ کر کہنے لگے اگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو بڑی تبدیلی آ سکتی ہیں۔مجھے یوں لگا جیسے پروفیسر نعیم اشرف نے معاشرے کی دکھتی رگ پکڑ لی ہے۔میں نے کہا یہ بات کڑی شرط نہیں، کہنے لگے بات بھی تو تبدیلی کی ہو رہی ہے۔اُس تبدیلی کی نہیں جو سیاسی حوالے سے بیان کی جاتی ہے۔اس تبدیلی کی بھی نہیں جو اُڑان پاکستان منصوبے سے باندھی گئی ہے۔یہ تو وہ تبدیلی ہے جو معاشرے کے اندرسے آنی ہے اور جس طرح ایک کڑوی دوائی اندر کی کثافتوں کو ختم کر دیتی ہے، اُسی طرح جھوٹ بولنا بند ہو گیا تو ہم اندر سے پاک صاف ہو جائیں گے۔میں سوچنے لگا بات تو پروفیسر نعیم اشرف نے بھی ٹھیک کی ہے اِس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی جھوٹ ہے۔کسی سطح پر بھی سچ بولنے کا رواج نہیں  رہ گیا۔ حتیٰ کہ سامنے کی حقیقتوں پر بھی جھوٹ کی ملمع کاری کر دی جاتی ہے۔جہاں حکمران،ادارے،افراد جھوٹ بولتے ہیں وہاں سچ کا چراغ کیسے جل سکتا ہے۔وہ تو بادِ مخالف کے تھپیڑوں کی زد میں ہوتا ہے، جھوٹ ایک  ایسا دشمن ہے جو روشنی ہونے نہیں دیتا۔

جب بھی روشن ہو دِیا  اُس کو بجھا دے آ کر

میرے دشمن نے یہ اصرار ہوا سے رکھا

کوئی سچ بولے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ سچ بولنے والوں کے ساتھ ویسے تاریخ میں بہت کچھ ہوا ہے، سقراط بھی سچ بولنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پی گیا تھا، مگر اس وقت پاکستان میں سچ بولنا نشانِ عبرت بننے کے مترادف ہے۔کہتے ہیں ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سوجھوٹ بولنے پڑتے ہیں، جبکہ میرا خیال ہے ایک جھوٹ ستر برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ہمارے ہاں سچ اور جھوٹ ایسے گڈ مڈ ہوتے ہیں کہ کسی ایک کا سرا ملنا مشکل ہو جاتا ہے جس ملک میں بڑے بڑے سچ بھی جھوٹ کے پردے میں چھپا دیئے گئے ہوں،ملک دو ٹکڑے ہونے کی بابت سچ بھی سامنے نہ آ سکا ہو۔ ماضی کو تو چھوڑیں اس دور میں بھی کہ جب جدید ٹیکنالوجی نے ہر جھوٹ کو پکڑنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ سرعام ہونے والے واقعات کے بارے میں سچ اور جھوٹ کا نتارا نہیں ہو پاتا۔ بات9مئی یا26 نومبر تک محدود نہیں اور بھی ایسے اَن گنت واقعات ہیں، جن میں سچ کو سات پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے اور جھوٹ دندنا رہا ہے۔جھوٹ معاشرے سے نکل جائے تو کئی برائیوں کا ازخود خاتمہ ہو سکتا ہے۔ترقی یافتہ معاشروں میں جھوٹ کو سب سے بڑی برائی قرار دے کر اُسے عوام کی نظروں میں قابل ِ نفرت بنا دیا گیا ہے۔وہاں کوئی جھوٹ بولے تو اس کے کردار پر ہمیشہ کے لئے گہرا داغ لگ جاتا ہے۔آج اس جھوٹ کی وجہ سے معاشرے میں بے اعتباری، بے یقینی اور بے چینی جڑ پکڑ چکی ہے۔کسی پر کوئی اعتبار نہیں رہا، سبزی والا بھی جھوٹ پر کاروبار کر رہا ہے اور اعلیٰ منصب پر بیٹھا ہوا شخص بھی کبھی اپنے افسروں اور کبھی عوام کے سامنے جھوٹ بولتا نظر آتا ہے۔معاشرے میں سچ بولنے والے بھی موجود ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں،بلکہ یہ وہ اقلیت ہیں جسے معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے بہت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست سے یہی سوال کیا کہ کسی ایک بات سے معاشرے میں تبدیلی آ سکتی ہے تو اُس نے کہا اچھائیوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اُن کا کوئی سرا پکڑ لیا جائے تو باقی منزلیں بھی آسان ہو جاتی ہیں۔اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا جب ہم اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے کے لالچ اور طمع کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ایمان اور اقدار کی قربانی دینی پڑتی ہے۔اُس نے ایک چھوٹی سے مثال دی۔ریلوے پھاٹک جب بند ہوتا ہے تو دونوں طرف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں تاہم بے ایمانی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب لوگ اپنی لائن میں رکنے کی بجائے گاڑی دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کی لائن میں لے آتے ہیں یہ بھی حرص اور طمع کی ایک صورت ہے کہ آپ اپنے حق سے زیادہ حاصل  کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو بڑا سادہ سا اصول ہے کہ جب کوئی اپنے حق سے زیادہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو گویا دوسرے کا حق مار رہا ہوتا ہے۔اس نے یہ عجیب نکتہ بھی اٹھایا کہ ہمارے ملک میں سب سے زیاد حادثات بھی اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ ہم دوسروں کا حق چھین کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔پھر مجھے ناصر محمود شیخ کی بات یاد آئی جو ٹریفک حادثات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا 2024ء میں ہزاروں جانیں ٹریفک حادثات میں ضائع ہوئیں اور ہر حادثے کا سبب اپنی حد سے نکلنے کی خواہش تھی۔

اِس نئے سال میں اگر کچھ نیا کرنے کی خواہش ہے تو پھر ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی کچھ نیا کرنا چاہئے۔مکھی پر مکھی بہت مار لی۔ جگ ہنسائی کے بے شمار مواقع پیدا کر لئے۔اب کچھ ملک و قوم کے لئے سوچا جائے،ایک ہی کھیل گذشتہ سات دہائیوں سے جاری رکھ کر ہمیں کیا ملا ہے۔کیا ہم 2025ء میں اسی کشا کش  میں رہیں گے۔ کیا وہی سیاسی بے چینی، وہی عدم استحکام اور کشیدہ سیاست2025ء میں بھی ہمارا مقدر رہے گی۔ ہم نے اڑان پاکستان کا منصوبہ تو پیش کر دیا ہے، جس میں بڑے بڑے خواب دیکھے اور دکھائے گئے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کیا آئین و قانون کی عملداری کے بغیر ایسے منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں۔ کیا سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔ طاقت کی زبان میں بات کرنے کا رویہ تو حالات کو کبھی بھی بہتر نہیں ہونے دیتا۔آپ پاکستان کی حدود میں جو  مرضی کرتے رہیں، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں پاکستان سے باہر ملک کا ایک اچھا تاثر قائم ہو۔قانون و آئین کی عملداری اور سیاسی استحکام کی خبریں دنیا کو ملیں تو پھر بہت کچھ ایسا کرنا پڑے گا،جو شاید آپ کو فی الوقت گوارا نہیں۔اگر سوچ یہ ہو کہ پچھلے دو سال اچھے گذر گئے ہیں اگلے دو سال بھی گذر جائیں گے۔اس لئے کچھ نیا کرنے کی ضرورت نہیں تو پھر سمجھ لیجئے کہ آپ تاریخ کے شعور سے بھی نابلد ہیں اور آپ کو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی عادت بھی نہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -