افغانستان سے انخلاء کے بعد، پاک امریکہ تعلقات باہمی حقیقت پسندی کیساتھ نچلی سطح پر آگئے
واشنگٹن (تجزیہ اظہر زمان)
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد خطے کی صورتحال میں جونئی تبدیلی آئی ہے اس کے نتیجے میں سارے منظرنامے بدل رہے ہیں۔ اتنی تیز رفتاری سے کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے طالبان ایک بار پھر بیس سال اواگون رہنے کے بعد افغانستان میں اقتدار کے سنگھاس پربراجمان ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں عمران خان (یا مغرب میں ”طالبان خان“ کی حیثیت سے جانیوالے) کی حکومت کا رویہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ امریکہ کیساتھ معاملات کرتے ہوئے خاص طور پر پاکستان کی موجودہ حکومت اور عمومی طورپر گزشتہ حکومتوں نے جو کرڈ چھپا چھپا کر رکھے وہ اس نے ”شو“ کرتے ہوئے ٹیبل پر نہیں رکھے بلکہ ویسے ہی نظر آگئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی فارن پالیسی کی کمان کرنے کے ذمہ دار طبقوں نے احتیاط برتی اور نہ پرواہ کی کہ ایسا ہوگیا تو کونسا ایسا پہاڑ گر جائے گا۔ پہلے پالیسی کا کیا انداز تھا اور اب نیا رویہ کیا سامنے آرہا ہے۔ اس کی تفصیلات ابھی ہم آگے چل کر بتائیں گے۔ لیکن پہلییہ نٹکرلیں کہ تازہ منظرنامے میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آگئے ہیں۔ بلاشک یہ تلعقات طویل عرصے سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن صدر بائیڈن اور وزیراعظم عمران کے موجودہ دور کے اس مرحلیپرایسا جو ہوا ہے وہ باہمی حقیقت پسندی پر مبنی ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ ”منافقت“ یا ڈپلومیسی کا کھیل کھیلتے ہوئے بالآخر دونوں نے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ماضی کی طرح امریکہ پاکستان کے کسی ناپسندیدہ ایکشن یا رویئے کی سزا دیتے ہوئے اس پر کوئی پابندی نہیں لگا رہا۔ وہ اپنی ضرورتوں کے مطابق تعلقات توڑنے کی بجائے اسے سردمہری کے ساتھ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف پاسکتان میں اقتدار اعلیٰ پر برا جمان تمام ہستیوں نے امریکہ سمیت تمام دنیا کو طالبان کی آمد کے بعد ایک بالواسطہ پیغام دیا ہے کہ ہم طالبان کے ساتھ پہلے بھڑ کھڑے تھے اور آج بھی کھڑے ہیں۔ اس کے ردعمل میں آپ جو بھی سمجھیں یا کریں وہ آپ کی مرضی ہے لیکن ہماری آئندہ پالیسی خطے میں نئی کابل حکومت سے مطابقت کے ساتھ ہی مرتب ہوگی۔ ظاہر ہے پاکستان کی فارن پالیسی کا نیا رنگ امریکہ کو پسند نہیں آئیگا لیکن وائٹ ہاؤس کے اندر کی خبر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ”تلخ حقیقت“ کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اگر سابق صدرٹرمپ کا دور ہوتا تو اب تک کئی دھمکی آمیز بیانات جاری ہو چکے ہوتے، لیکن صدر بائیڈن ان سے بہت مختلف ہیں۔ وہ مصلحتاً خاموش رہنا اور کم سے کم تعلقات کو برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ مشرق وسطی کے مشرقی کنارے پر واقع غیر عرب پاکستان کو جس کی سرحدیں بیک وقت افغانستان، ایران، چین اور روس سے جڑی ہیں امریکہ جیسی عالمی طاقت کبھی نظر انداز نہیں کرسکتی۔ وہ پاکستان کو ناپسند بھیکرے، اتحادی نہ بھی بنائے تب بھی وہ نہیں چاہے گا کہ وہ کھل کر ایران، چین یا روس کی طرف جھک جائے۔ تاہم امریکہ کے پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے دور کی طرح اب اسے پاکستان کے ”ناپسندیدہ رویوں“ کی موجودگی میں اس کے ساتھ مزید گرمجوشی کا ”ڈرامہ“ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سردمہر کا رویہ برقرار رکھا جائے جو اتنا واضح ہو کہ پاکستان کی مقتدر طاقتیں اسے باقاعدہ محسوس کریں۔ شاید انہیں احساس ہو جائے تکہ امریکی پالیسی کا یہ نیا انداز ”عمل“ نہیں بلکہ ”ردعمل“ ہے پاکستان کی افغان سرحد کے قریب ان جنگجوؤں کی درپردہ حمایت کا جنہوں نے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجوں کی موجودگی کے دور میں انہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تمام تر بدمزگی کے باوجود امریکہ تعلقات توڑنا نہیں بلکہ تھوڑا سا بھرم قائم رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ چاہتاتھا کہ افغانستان کی طویل جنگ ختم ہو اور امریکی اور اتحادی فوج کا انخلاء لیکن ان کے جانے کے بعد طالبان سے مفاہمت پیدا کرکے افغانستان میں ایسا امن قائم کیا جائے کہ وہاں ایسی وسیع نمائندگی والی حکومت قائم ہو جو ایک طرف جمہوری اور انسانی حقوق کے اصولوں کی پاسداری کرے اور دوسری طرف اس ملک کو داعش اور القاعدہ جیسے خطرناک دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے دے۔ اس سلسلے میں طالان کے ساتھ طے پانے والے دوہا معاہدے کی پاسداری ہوئی یا اس کا فائدہ اٹھا کر طالبان نے ایک شاطرانہ کھیل کھیلا۔ وہ ایک الگ موضوع ہے۔ طالبان کو امن مذاکرات کی میز پرلانا اور ان سے معاہدہ کرنا امریکہ کی ضرورت تھی جو درست طورپر یہ سمجھتا تھا کہ اس کام میں پاکستان سے زیادہ کوئی مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میں بہت محنت کی، طالبان کو قائل کیا اور ان کے ساتھ معاہدہ طے کرانے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان نے یہ کام امریکہ کو خوش کرنے کیلئے نہیں کیا یہ اس کی اپنی ”خفیہ پالیسی“ کے عین مطابق تھا کہ امریکہ افغانستان سے رخصت ہو اور اس کے پسندیدہ طالبان کابل کا اقتدار سنبھالیں۔ واشنگٹن سرکار کے موجودہ اور سابق کھلاڑیوں، انٹیلی جنس اداروں اور معتبر مبصرین کو پوری طرح معلوم تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کیلئے پاکستان کی آئی ایس آئی نے امریکی فنڈ سے مجاہدین کے جو لشکر تیار کئے تھے ان پر سے اپنا دست شفقت کبھی نہیں اٹھایا۔ وہ طالبان کی شکل میں کابل میں برسراقتدار آئے یا انہوں نے مضبوط غیر فوجی دستوں کی شکل میں اپنا وجود برقرار رکھا۔ آئی ایس آئی نے اس کی سرپرستی اور کسی حد تک پرورش کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکہ کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن سوویت یونین کے چلے جانے اور پھرٹوٹنے کے بعد ان مجاہدین کی پشت پناہی ختم کردی تھی۔ اسے مسئلہ تب ہوا جب نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا تعاقب کیا تو اس وقت کی طالبان حکومت نے اسے اپنی پناہ سے نکال کر امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ بتانا یہ مقصود یہ ہے کہ پہلے تعلق کو نبھاتے ہوئے طالبان کی اس وقت کی حکومت بھی پاکستان کی حمیت یافتہ تھی اقتدار سے نکلنے کیبعد ان کے مختلف گروہوں سے پاکستان کا پیار کاتعلق برقرار رہا اور وہ محبت کا سلسلہ کابل میں ان کے دوبارہ برسراقتدار آنے پر بھی قائم ہے۔ یہ تعلق یا محبت گھٹتی بڑھتی رہی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ طالبان ہمیشہ ہی یا سب معاملات میں پاکستان، اس کی فوج یا آئی ایس آئی کے تابعدار ہی رہے۔ اتفاق سے طالبان کے ساتھ امریکہ کے تنازع کے وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں ایک فوجی حکومت تھی۔ انہوں نے فوج یا آئی ایس آئی کے طالبان کے ساتھ اچھے روابط کے پس منظر کے باوجودایک ایسی سٹریٹجک پالیسی اختیار کی اور امریکہ سے تصادم کی بجائے تعاون کا راستہ اپناکر پاکستان کو ”افغاستان“ بننے سے بچا لیا۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے ملا عمر اور اس کے ہم نواؤں کو امریکی یلغارسے بچانے کیلئے بہت سمجھایا اور اسامہ کی پناہ ختم کرنے پر قائل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر وہ مان جاتے تو ساید افغان جنگ نہ ہوتی۔ اس میں ان کا ہی فائدہ تھا یہ مثال اس لئے بیان کی ہے کہ طالبان عمومی طور پر پاکستان کے تابع ہی رہے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوا اور اہم سرٹیجک موڑ پر انہوں نے پاکستان کی بات نہ مان کر بہت نقصان بھی اٹھایاافغان جنگ میں پاکستان نے اپنے سٹرٹیجک فیصلے کے تحت امریکہ کا ساتھ دیا لیکن اپنے طریقے سے، پاکستانی فوج عراق، شام یا افغانستان میں امریکہ کی اتحادی افواج کا حصہ کبھی نہیں بنی۔ تاہم افغان جنگ میں امریکہ کو سٹرٹیجک سہولتیں فراہم کیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو امریکہ کی طرف سے اقتصادی اور فوجی امداد طویل عرصے تک ملتی رہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے کابل میں امریکہ کی حمایت سے قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو دل سے پسند نہیں کیا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ طالبان سے تمام تر ہمدردی کے باوجود پاکستان نے افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے دوران طالبان کی کوئی امداد نہیں کی۔ سرکاری انتظامیہ اور امریکہ کے خلاف لڑنے والے افغانستان میں موجود گروہ بخوبی واقف تھے کہ پاکستان ان کا مخالف نہیں ہے لیکن وہ اس جنگ میں ان کا ساتھ دے کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مار سکتا۔ رہ گیا معاملہ حقانی نیٹ ورک کا تو ان کیپاکستان کی طرف سے حمایت کے بارے میں جو الزام لگائے جاتے ہیں وہ سوفیصد درست نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکومت یا فوج کی پسند یا کوشش کے باوجود افغان سرحد کے پہاڑی علاقے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لانا مشکل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کا یقیناً پاکستان سے گہرا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کا حمایت یافتہ یہ گروہ جب پاکستان کی سرحد اندر اتحادی یا افغان سرکاری فوج کی یلغار سے
بچنے کیلئے خیمہ زن ہوا تو ان کو صرف یہ رعایت دی گئی کہ وہ اپنی بقاء کیلئے پرامن طور پر رہیں گے تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ یہی درست حکمت عملی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کا مقابلہ کرنے کے دوران پاکستانی فوج یہ نہیں چاہتی تھی کہ اتنا بڑا جنگجو گروہ جو فی الحال ان کا مطیع ہے کہیں ان کے رویئے سے مشتعل ہوکر توپوں کا رخ پاکستان کی طرف نہ کرلے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ گروہ اپنا آزادانہ پرسکون وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ گاہے گاہے اتحادی فوجوں کو بھی نشانہ بناتا تھا اور سینکڑوں امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا باعث بھی بنا۔ ان کو روکا بھی جاتا تھا دھمکی بھی جاتی تھی لیکن ان کے خلاف باقاعدہ کارروائی سے پاکستانی فوجنے مصحلتاً اجتناب کیا۔ کچھ دیگر مزاحمتی لشکر افغان جنگ کے عتاب سے بچنے یا لڑائی کی تیاری کیلئے وقت حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے سرحدی علاقے میں یقیناً پناہ حاصل کرلیتے تھے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان نے جن جنگجوؤں کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے پناہ گاہیں یا ”جنتیں“ فراہم کر رکھی تھیں۔ امریکی انٹیلی جنس کو ان پناہ گاہوں کا علم تھا جو پاکستان پر زور دیتے تھے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ پاکستانی فوج سرحدی علاقہں کو محفوظ کرنے کیلئے یقیناً اقدامات کرتی تھی لیکن اس کے لئے عملی طور پر ممکن نہیں تھا کہ وہ اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں سے توجہ ہٹا کر سردی علاقے پر ضرورت سے زیادہ عمل کرتی۔ ایک حد سے زیادہ کارروائی کی صورت میں اندرون ملک کے ساتھ ساتھ سرحد پر ایک اور محاذ کھل سکتا تھا جو سٹرٹیجی کے اعتیار سے نقصان دہ ہوسکتا تھا جسے امریکہ نہیں سمجھ رہا تھا۔امریکہ کو نائن الیون سانحے سے بہت پہلے طالبان کی حکومت کے انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین کے حوالے سے سخت قوانین پر تحفظات تھے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ پاکستان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کی بناء پر اسے نظر انداز کر رہا تھا۔ تاہم افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان نے اتحادی افواج میں شامل نہ ہونے کے باوجود امریکہ کی عمومی حمایت کی۔ اس وقت پاکستان کے درپردہ یا ظاہری طور پر طالبان کے ساتھ تعلقات امریکہ کیلئے مسئلہ بنے اور پھر باہمی بداعتمادی کا نیا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ سطح پر صرف حقانی نیٹ ورک کا نام آتا رہا اور کھلے یادبے لفظوں میں شکایت ہوتی رہی کہ امریکی فوجوں پر حملیکرنے والے ایک جنگجو گروہ کو پاکستان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کی اس سلسلے میں جو پوزیشن یا توضیح تھی وہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں لیکن جنگی میدان میں امریکہ کے حریف طالبان سے پاکستان کے خفیہ طورپر اچھے تعلقات کا معاملہ منظرعام پر نہیں آیا لیکن دونوں ممالک کے درمیان کھچاؤ کا ایک سبب یہ تھا جس کی وجہ سے افغانستان کے ایشو پر امریکہ اور پاکستان کبھی ایک صفحے پر نہیں آسکے۔ پاکستان کی امریکہ پر بداعتمادی کا سبب یہ تھا کہ امریکہ صرف اپنی ضرورت کے لئے پاکستان کو استعمال کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ اس کے لئے امریکی مفادات مقدم ہیں اور قربت یا فاصلے کا تعین اسے ذہن میں رکھ کر ہی کیا جاتا ہے گر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی پرانی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے قیام پاکستان کے اگلے ہی روز اسے تسلیم کرنے کی پہل کی اور دوستی کا آغاز کرلیا جس کا پاکستان نے اس طرح بدلہ چکایا کہ وہ گزشتہ دور میں خصوصی طورپر سردجنگ کے عرصے میں کھل کر روس کے خلاف امریکی دھڑے میں شامل ہوگیا۔ امریکہ نے اس پر بے شمار نوازشات کیں اور اقتصادی اور فوجی اعتبارسے اسے مضبوط بنانے میں ٹھوس کردار ادا کیا۔ ہموار چلتے ہوئے تعلقات میں اس وقت راستے میں ایک بڑا گڑھا تب پیدا ہوا جب پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کا ارادہ کیا اور بالاخر ایٹمی دھماکہ کرلیا۔ پاکستان پر پابندیاں لگیں لیکن امریکہ نے بعد میں صورتحال سے سمجھوتہ کرلیا۔ پاکستان کو امریکہ سے یہ بھی شکایت رہی کہ اس نے اتحادی ہونے کے باوجود مسئلہ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ دیگر معاملات میں پاکستان کا ٹھوس ساتھ نہیں دیا۔ حالانکہ اس وقت عملاً روسی کیمپ کا اہم حلیف تھا وہ الگ بات ہے کہ وہ رسمی طورپر ایک غیرجانبدار ملک تھا۔ امریکہ نے جب بھی عمران خان سے معاملا کیا تو اس نے یہ نہیں بھلایا کہ اس نے افغان جنگ کے مشکل دور میں پاکستان کے راستے افغانستان تک امریکہ کے فوجی اور دیگر سازوسامان کی ترسیل کو بند کرنے کیلئے باقاعدہ تحریک چلائی اور قافلوں کو روکا۔ طالبان کے حق میں اتنی سرگرمی دکھانے پر اسے مغرب میں ”طالبان خان“ کا لقب ملا۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ زمینی حقائق تسلیم کرتے ہوئے اپنی جذباتی پالیسی میں تبدیلیاں پیدا کیں لیکن مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان منہ سنے جو بھی کہیں ان کا دل پہلے بھی طالبان کے ساتھ دھڑکتا تھا اور آج بھی دھڑکتا ہے۔ طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آگے بڑھ کر دنیا بھر سے انسانی ہمدردی کی بناء پر افغان عوام کی امداد کی ہے اس نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ خود طالبان کی حکومت نے اتنے زور دار طریقے سے مطالبہ نہیں کیا۔ عمران خان کی حکومت طالبان حکومت کے برسراقتدار آنے پر خوشی سے جو نہال رہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے بلکہ باقاعدہ تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ طالبان کے ساتھ رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبی کھل کر اظہار نہیں کرسکا۔ لیکن اب تو بار بارعمران خان کو یہ کریڈٹ دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کایہ موقف درست ثابت ہوگیا ہے کہ افغان جنگ میدان میں نہیں جیی جاسکتی۔ اس کا حل صرف امن مذاکرات تھے، لیکن اس کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کی انتظامیہ کو یہ خیال نہیں آیا اس کے ذریعے وہ بالواسطہ طور پر یہ بات بھی تیار ہے کہ افغان جنگ میں وہ کبھی دل کے ساتھ امریکہ کے حامی نہیں تھے لیکن اب پاکستان کے یہ کارڈ اس رویئے سے سب کو نظر آرہے ہیں باقاعدہ ”شو“ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کا زبانی کلامی ساتھ دیتا رہا لیکن اس نے طالبان کی حمایت سے کبھی ہاتھ نہیں کھینچا۔ اب چونکہ کابل میں طالبان کی حکومت آگئی ہے تو مبصرین کے مطابق اب پاکستان کو ذرہ پروا نہیں ہے کہ اس کی ماضی کی حکمیت عملی بلاشک آشکار ہو جائے۔ اس پس منظر میں امریکی انتظامیہ نے بھی متعدد واضح منفی اشارے دیئے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا ذرہ مشکل نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کے کس گڑھے میں گر چکے ہیں۔ صدر بائیڈن نے ابھی تک وزیراعظم عمران خان کو رسمی فون نہیں کیا۔ نظر انداز کرنے کا ایسا خاموش طریقہ پہلی بار کسی امریکی صدر نے پاکستان پر آزمایا ہے اس کے علاوہ پاکستان سے ڈپلومیٹک معاملات پر رابطے کیلئے امریکی وزیرخارجہ نے بھی پاکستان رجوع نہیں کیا۔ محکمہ خارجہ کے نچلی سطح کے افسر یہ کام کر رہے ہیں۔ بس تعلقات ٹوٹے نہیں ہیں باقی سب کچھ ہوگیا ہے۔
اظہر زمان