’’باؤ! گوڈا سدھا کر“ مجھ سے ہلا نہیں جا رہا تھا، پیچھے بیٹھا شخص اٹھا کندھوں پر ہاتھ رکھا اور جانی پہلوان نے مکا مارا، میری چیخیں آسمان تک گئی ہوں گی

 ’’باؤ! گوڈا سدھا کر“ مجھ سے ہلا نہیں جا رہا تھا، پیچھے بیٹھا شخص اٹھا ...
 ’’باؤ! گوڈا سدھا کر“ مجھ سے ہلا نہیں جا رہا تھا، پیچھے بیٹھا شخص اٹھا کندھوں پر ہاتھ رکھا اور جانی پہلوان نے مکا مارا، میری چیخیں آسمان تک گئی ہوں گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:128
 عظمت بھائی؛
 عظمت بھائی نیک، متقی، پرہیزگار اور نماز پنجگانہ کے پابند تھے۔ ہمیں بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتے اور جمعہ کی نماز کے لئے اکثر اپنی گاڑی میں ڈی بلاک مسجد لے جاتے تھے۔ کرکٹ کے شیدائی تھے اور جب تک ہمت اور طاقت نے ساتھ دیا انہوں خوب جم کر کرکٹ کھیلی۔ غالباً اپنا آخری میچ 75 سال کی عمر میں تو کھیلا ہو گا۔ایک میچ کے دوران میں کیچ کرتے میں فیصل سے اس شدت سے ٹکرایا کہ میرا دائیں گھٹنہ dislocate ہو گیا۔ میں انتہائی تکلیف اور درد میں تھا۔ اکبر مجھے عظمت بھائی کی گاڑی میں گھر چھوڑ گیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ گھر آ کر میں نے کسی سے اس چوٹ کا ذکر نہ کیا اور انتہائی نا قابل برداشت دردبرداشت کرتا رہا۔ میچ کے بعد عظمت بھائی ا کبر کو ساتھ لئے آئے اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر بھاٹی دروازے نامور جراح”جانی پہلوان“ کے اڈے لے آئے۔ بڑی مشکل اور تکلیف میں ان دونوں کے سہارے اس جراح کے”اڈا“(کلینک)پہنچا۔ جانی پہلوان نے مجھ سے ایک آدھ بات پوچھی اور روئی اور کپڑے کے پیڈ بناتا کسے سے محو گفتگو رہا۔ ہاتھ میرے گھٹنے پر رکھ کر بولا”درد ایتھے اے باؤ۔“ میں نے جواب دیا؛”نہیں اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا درد کہاں تھی۔ اس نے مجھے گھورا میں نے دل میں سوچا ”شہزاد احمد بیٹا سمجھو گھٹنا ہوا خراب ہوا۔“ اتنے میں وہ بولا؛”باؤ! گوڈا سدھا کر۔“ مجھ سے ہلا نہیں جا رہا تھا۔ اتنے میں میرے پیچھے بیٹھا شخص اٹھا اس نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور جانی پہلوان نے میرے گھٹنے پر مکا مارا۔ میری چیخیں آسمان تک گئی ہوں گی۔درد سے میری آنکھوں میں آنسو اترآئے۔عظمت بھائی نے ہی اس پٹی کے200روپے اسے دئیے البتہ وہاں سے نکلے تو میرے گھٹنے کے درد میں کافی کمی تھی۔ شاید جوڑ پھر سے اپنی جگہ بیٹھ گیا تھا۔ یہ عظمت بھائی کا بڑا پن تھا کہ ہم چھوٹوں کا بڑا خیال کرتے تھے۔ وہ سبھی کے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔آج بھی ان سے رابطہ ہے۔
 ایک ماہ تک ہر دوسرے دن پٹی کرانے ماڈل ٹاؤن سے بھاٹی آتا، فیصل بھی میرے ساتھ ہوتا تھا جس کا”اترا کندھا“ بھی جانی پہلوان نے ہی چڑھایا تھا۔ اللہ کے فضل سے 3 ماہ میں ہی صحت مند ہوگیا اور پھر سے باؤلنگ کرانے کے قابل بھی۔ اس دور کے جراح اور پہلوان کمال کے کاریگر تھے اور اپنے کام کے ماہر۔ بعد میں جب کبھی بھی ایسی کوئی چوٹ لگتی(اکثر ٹخنہ ہی اترتا تھا) تو جانی پہلوان کا  بیٹا جو سمن آ باد موڑ پر بیٹھا کرتا ہمارے اکھڑے جوڑ جوڑتا تھا۔
 میں کچھ عرصہ لاہور کے مشہور کرکٹ کلب”پنجاب کلب“ سے بھی کرکٹ کھیلا تھا۔(بہت سے نامور کھلاڑی علی احمد، عباس صاحب مرحوم، غفار کاظمی، انیس صدیقی، محمد آصف،زاہد مرحوم، ناصر محمود،وغیرہ سب اسی کلب سے کھیلتے تھے۔ میاں جاوید علی مرحوم۔ یہ ایل سی اے کے سیکرٹری تھے۔)۔ میرے کپتان ناصر محمود نے مجھے ”ان سونگ“ بال کر انا سکھایا۔ وہ اپنے دور کا کامیاب اور نامی باؤلر تھا۔ شریف انسان۔) ہم کبھی میچ کھیلنے سمن آ باد بھی جاتے۔ جہاں کی ڈونگی گراؤنڈ مشہور تھی۔ اس زمانے میں یہاں مٹی زیادہ اور گھاس کا تنکا بھی نہ تھا۔ لاہور کی کون سے گراؤنڈ تھی جہاں میچ نہیں کھیلا، ریلوے اسٹیڈیم، کارسن انسٹیٹیوٹ، پاتھیاں ں والی گراؤنڈ،قدافی سٹیڈیم، منٹو پارک، وغیرہ۔ ناصر سے آج بھی رابطہ ہے۔  
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -