شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر88

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر88
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر88

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مقصود الٰہی شیخ 1964ء سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ بینکار ہونے کے علاوہ معروف ادبی مقام رکھتے ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انتہائی نفیس اور پر جوش شخصیت ہیں۔ حضرت پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کے مداح ہیں۔ان کے حوالے سے بات ہوئی تو کہنے لگے ’’میں ایک ترقی پسند مسلمان ہوں مگر اوّل و آخر مسلمان ہوں۔ ترقی پسند ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دین اور شعائر اسلامی کی مخالفت کریں گے تو دانشوروں کے طبقے میں شمار ہوں گے بلکہ ایسے مسلمان تو بد نصیب ہوں گیجو پڑھ لکھ کر ترقی پسند محض اس لیے کہلواتے ہیں کہ وہ اسلام پر تنقید کرنا واجب سمجھتے ہیں۔اسلام نے علم کو پھیلایا ہے اور اللہ کا حکم ہے کہ علم حاصل کرو ۔ علم ہماری میراث ہے اور علم ہی عالم بناتا ہے مگر یہ عالم ہے جو سیدھا راستہ چھوڑ کر غلط راستہ اپنا لیتا ہے۔ اسلام نے دور جہالت کو ختم کرکے انسانی عظمت کو ترقی دی اور انسانیت کا تحفظ کیا لہٰذا جب میں کسی تعلیم یافتہ اور با عمل مسلمان کو انسانیت کی بھلائی اور علم کی ترویج میں مصروف دیکھتا ہوں تو اسے بھی ترقی پسند کہتا ہوں۔ میری نظر میں پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی بھی ترقی پسند مسلمان ہیں۔وہ دائیں بازو کے ترقی پسند ہیں جن کا مقصد اسلام کا روشن اور پرامن تشخص بلند کرنا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں اسلام کی خدمت کی اور اس کی اشاعت کے کاموں کو ترقی دی ہے۔ میں پیری مریدی اور تصوف سے نابلد ہوں بلکہ یوں کہہ لیں کہ ’’ناواقف آداب صوفیا ہوں‘‘ مگر میں پیر صاحب موصوف کو بلند فکر پیر اور نہایت متقی با عمل بزرگ مانتا ہوں۔ میں1964ء سے برطانیہ میں ہوں۔ اس وقت مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہاں ایک ایسے نوجوان موجود ہیں جو رات کو مل فیکٹری میں کام کرتے اور صبح درس قرآن دیتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ یا الٰہی ولایت میں آکر بھی ایک پختہ عقیدہ مسلمان اپنے دین کی خدمت میں مستغرق رہتا ہے تو اس میں تیری رضا شامل ہے اور یہ تیری ذات کریم ہی ہے جو اسے کامیابی اور نصرت عطا فرماتی ہے۔

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر87 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی ایک معتبر اور محترم ترین شخصیت ہیں۔ میں نے آج تک کسی پیر کے ہاتھ نہیں چومے مگر دل چاہتا ہے پیر صاحب کے ہاتھ چوم لوں۔ ان کے ماتھے پر بوسہ دوں کیونکہ پیر صاحب نے اسلام کے صحیح تشخص کو اجاگر کیا اور امن و سلامتی کے ساتھ دینی تر ویج کا نیٹ ورک اس قدر منظم انداز میں پھیلایا کہ آج پورے برطانیہ میں پیر صاحب کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پیر صاحب میں صوفیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ نہایت نرم اور احساس دل رکھنے والی اعلیٰ فکر شخصیت ہیں۔ میں اگر کبھی آپ سے ملاقات نہ کر سکوں تو آپ خود فون کی زحمت اٹھاتے اور عید پر مبارک باد دیتے ہیں۔
آپ کی محبت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آپ کبھی کبھار مجھے محفل سماع میں بھی مدعو فرماتے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں نیا نیا بریڈ فورڈ آیا تو پہلی بار یوم اقبال منانے کا سوچا۔ اہتمام کیا گیا اور ایک خاتون کو صدارت کے لیے مدعو کیا۔ بچوں نے کلام اقبال وائلن پر گایا۔ بہت سے مسلمانوں نے پسند کیا اور بعضوں کو یہ جرأت بری لگی لہٰذا انہوں نے مجھ پر کفر کا الزام لگایا۔ مگر قبلہ پیر صاحب نے ہمیشہ مجھے عزت و احترام دیا اور میری راہ نمائی فرمائی۔ ہم نے جب پاکستان سوسائٹی بنائی تو عبدالکریم قریشی صاحب نے ہمارا منشور بنایا جو پیر صاحب کے بہت قریب تھے ۔ میں پیر صاحب کی شخصیت پر بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں اگر زندگی نے وفا کی تو انشاء اللہ پیر صاحب کی خدمات و مراتب پر بات ہوگی۔
***
حضرت پیر سیّد معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کے بھانجے سیّد تصدق حسین شاہ 1963ء سے بریڈ فورڈ میں مقیم ہیں۔ پیر صاحب نے جب برطانوی اور تارکین وطن مسلمانوں کو اسلام کی طرف راغب کرکے انہیں بھولا ہوا سبق یاد کرایا تو اس وقت اسلامی تعلیمات کے لیے اساتذہ کرام کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ پیر صاحب نے اپنے بھانجے سیّد تصدق حسین شاہ کو اپنے پاس بلا لیا اور وہ درس و تدریس میں ہاتھ بٹانے لگے۔ سیّد تصدق حسین شاہ نے پیر صاحب کی ہدایت پر آپ کی معیت میں بھی کئی تبلغی دورے کئے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں ’’قبلہ پیر صاحب عام پیروں سے بہت مختلف ہیں۔ آپ ادوار و وظائف کرتے اور مریدین کی روحانی تربیت بھی فرماتے اور کبھی کبھار تعویذ بھی دے دیتے ہیں لیکن آپ کا اصرار اور ہدایت عملی ہوتی ہے۔ آپ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی ہدایت فرماتے ہیں۔ آپ تنگ نظر نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے لیے پراٹوکول مانگتے ہیں۔ انتہائی سادہ لباس اور رہن سہن پسندفرماتے ہیں۔ آپ ایک مبلغ ہیں اور اسی طریق کو پسند بھی فرماتے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ دوسروں کو بھی تبلیغی اور علمی اور اصلاحی مقاصد کے لیے تیار کیا اور تحریک دی ہے۔ لہٰذا اس غرض سے آپ نے بہت سفر کیا ہے۔ برسوں پہلے پیر صاحب نے ایک اخبار میں خبر پڑھی کہ پریسٹن میں ایک ہم مسلک تنظیم موجود ہے جس نے گھر کرایہ پر لے کر مسجد بنائی ہے۔ یہ بھارتی مسلمان تھے۔ آپ نے مجھے یاد فرمایا اور حکم دیا کہ پریسٹن چلتے ہیں۔ ہم چار لوگ پریسٹن پہنچے اور اس شخص کو تلاش کیا جس نے جماعت اہلسنت سے وابستہ مسلمانوں کو اکٹھا کیا تھا۔ غالباً اس کا نام عبداللہ کمال تھا۔ پیر صاحب ان سے ملے اور ان کے جذبہ خدمت کی تعریف فرمائی۔ اس طرح ان سے تعلق پیدا ہوگیا۔ پھر جب ان لوگوں نے جگہ خرید کر مسجد بنانا چاہی تو مسائل پیدا ہوگئے۔مسائل حل کرنے کے لئے پیر صاحب نے راجہ عارف صاحب کو پریسٹن میں ہجرت کا کہا۔ راجہ صاحب پیر صاحب کی ہدایت پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر پریسٹن چلے گئے اور وہاں مسجد کی تعمیر و قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پیر صاحب نے مشکلات کی وجہ سے تبلیغی و اصلاحی کام نہیں چھوڑے۔ جب شاہ احمد نورانی صاحب تشریف لاتے تھے تو یہاں آپ کی بہت مخالفت شروع ہوگئی۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نورانی صاحب کے خلاف تھی۔ بھٹو نہیں چاہتے تھے کہ شاہ احمد نورانی برطانیہ میں کسی مسجد میں یا اسلامک سینٹر میں بیٹھ کر ان کے خلاف بات کریں۔ شاہ احمد نورانی سیاسی شخصیت بھی تھے۔ ظاہر ہے بھٹو حکومت کے تحفظات برقرار تھے۔ اس وجہ سے پیر صاحب کو شاہ احمد نورانی سے تعلقات رکھنے کی وجہ سے بھی مساجد کی تعمیر میں دشواریاں پیش آنے لگیں لیکن آپ نے استقامت برقرار رکھی اور بالآخر کامیاب ہوگے۔ پیر صاحب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ آپ کی ساری توجہ تبلیغ کی طرف رہی ہے۔ پیر صاحب نے اپنے عزیز اوقارب کے درمیان محبت بڑھانے کی کوششیں کی ہیں اور متواتر نصیحت فرماتے رہتے ہیں۔ غریب اور مستحق عزیزوں کی دل کھول کر مدد فرماتے ہیں اور اس کا چرچا بھی نہیں کرتے۔ میری دعا ہے اللہ کریم اور محبوب خدا ﷺ کے طفیل حضرت پیر صاحب کو عمر حضر عطا ہو اور وہ اسلام اور انسانیت کی خدمت کی تحریک کو مزید آگے بڑھا سکیں۔(جاری ہے)

شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر89 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں