مشرق وسطیٰ جنگ کے دھانے پر
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن عبدالکریم نصراللہ کی شہادت کے ساتھ حزب اللہ کی تحریک کا ایک اور باب بند ہو گیا۔ دو ماہ کے عرصے میں امت مسلمہ کا یہ دوسرا گمبھیر سانحہ اور قیادت کا بڑا جانی نقصان ہے۔ اسی سال 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں اس وقت شہید کر دیا گیا تھا جب وہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں حصہ لینے کے لیے تہران میں موجود تھے۔ اسماعیل ہانیہ کی طرح حسن نصراللہ کا قاتل بھی اسرائیل ہی ہے۔
حسن نصراللہ 31 اگست 1960ء کو لبنان کے علاقے برج حمود میں ایک شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے النجاح اور سان الفیل سکولوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1978ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس وقت آپ کی عمر 15 سال تھی اور خانہ جنگی کی وجہ سے آپ کو اپنے خاندان کے ساتھ آبائی علاقے واپس جانا پڑا۔ آپ نے اپنے علاقے میں تعلیم جاری رکھی۔ اس دوران آپ کی ملاقات امام سید محمد غراوی سے ہوئی جنہوں نے آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے نجف اشرف جانے کا مشورہ دیا۔ نجف اشرف میں آپ کی ملاقات حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی سے ہوئی اور جلد ہی ان میں گہرا تعلق قائم ہو گیا۔ یہ گہری دوستی لبنان میں حزب اللہ کے قیام میں ان کی پُرجوش شرکت کا باعث بنی۔ نصراللہ بعد میں بقاع کے علاقے میں امل تحریک کے نمائندے اور اس تحریک کے مرکزی سیاسی دفتر کے رکن بن گئے۔ 1982ء میں جب اسرائیلی جارحیت پسندوں نے لبنان پر حملہ کیا تو تحریک امل میں پھوٹ پڑ گئی اور اس تحریک سے دو حصے ہو گئے۔ پہلا گروہ ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر گیا جبکہ دوسرا گروہ سید عباس موسوی کی قیادت میں مزاحمتی تحریک کے طور پر آگے بڑھا۔ سید حسن نصر اللہ نے بیروت کے علاقے کے نائب سربراہ کا عہدہ سنبھالا اور پھر اس علاقے کے سربراہ بن گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ لبنانی حزب اللہ کے ایگزیکٹو سربراہ بن گئے۔ 1991ء میں لبنان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلیوں اور لبنان کی حزب اللہ اور امل تحریک کے درمیان مسلح تصادم کے واقعات کے بعد انہوں نے ایک بار پھر حزب اللہ کو منظم کیا۔ اس وقت سید عباس موسوی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے اور شیخ نعیم قاسم ان کے نائب تھے۔ 16 فروری 1992ء کو صیہونی ہوائی حملے میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد حسن نصراللہ لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ اس وقت ان کی ان کی عمر محض پینتیس سال تھی۔ اپنے دور میں انہوں نے حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا اور ایک متنوع فوجی ڈھانچہ تیار کیا جو صیہونی حکومت کے خلاف ایک بے مثال آپریشن کرنے میں کامیاب رہا اور 22 سال کے قبضے کے بعد بالآخر 2000ء میں جنوبی لبنان سے صیہونی حکومت کے انخلا کا باعث بنا۔ حسن نصراللہ کی مقبولیت اور قدر و قیمت اس وقت مزید بڑھ گئی جب جولائی 2006ء کی 33 روزہ جنگ کے بعد صیہونیوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر جنوبی لبنان سے انخلا پر مجبور ہونا پڑا۔ حسن نصراللہ سیاسی اور مذہبی امور کا وسیع علم رکھتے تھے اور ان کی تقریر میں اعلیٰ فصاحت و بلاغت پائی جاتی تھی۔ 7 اکتوبر 2023ء کے آپریشن کے آغاز کے بعد جس تنظیم نے سب سے زیادہ غزہ میں حماس کا ساتھ دیا وہ حسن نصراللہ کی زیر قیادت حزب اللہ ہی تھی۔ ایک سال ہونے کو ہے‘ اس دوران لبنانی محاذ اور مقبوضہ علاقوں میں روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی زندگی کی چھ ہنگامہ خیز دہائیاں لبنان اور دیگر عرب اور اسلامی ممالک پر غاصب صیہونی قبضے اور جارحیت کے خلاف جدوجہد میں گزاریں۔ ان کا نام مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایران نے اسرائیل پر 400 سے زیادہ میزائل داغے ہیں اور اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ وہ اس کا جواب دے گا جبکہ امریکہ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ اس جنگ میں وہ ہر حال میں اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ اس وقت ایک نئی اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس صورت حال سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔ اس سارے عمل میں سب سے توجہ طلب معاملہ عرب ممالک کی خاموشی ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ غزہ کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل اب لبنان کی طرف اپنا رخ کر چکا ہے‘ اور یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ وہ اپنی جارحیت کو لبنان تک ہی محدود رکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عرب ممالک اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ِ؟ کیا انہیں نظر نہیں آ رہا کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکہ اور مغرب کی پالیسیاں مکمل طور پر جانبدارانہ ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسرائیل کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟
امریکہ اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے اور اسماعیل ہانیہ اور حسن عبداللہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد یہ تک کہا گیا کہ اسرائیل میں ہونے والے جانی نقصان کا بدلہ لے لیا گیا‘ لیکن جب یہ ممالک اسرائیل کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ فلسطینی مسلمانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں اور انہیں بھی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک جگہ‘ ایک ملک اور ایک وطن کی ضرورت ہے۔ ہم بہت لچک کا مظاہرہ کر کے یہ تسلیم کر بھی لیں کہ اسرائیل کا قیام بہت ضروری تھا تو کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ اسرائیل ان پیرامیٹرز کی پابندی کرتا جو اقوام متحدہ کی جانب سے اس کے لیے طے کیے گئے تھے؟ جب اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی شکل دیتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں تک کو ویٹو کر دیا جاتا ہے۔ اکثر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیمیں اسرائیل کے حقوق کو پامال کر رہی ہیں‘ لیکن کیا کوئی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرے گا کہ یہ تنظیمیں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی ضرورت مغربی ممالک کی جانبدارانہ پالیسیوں کی وجہ سے پیش آئی؟ اس جانب داری کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے اسرائیل کی جانب سے غزہ اور لبنان پر حملے بند کیے جائیں اور اس کے بعد فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو آزاد مملکتیں قائم کرنے کے عمل کا آغاز کیا جائے چاہے وہ اوسلو معاہدے کے تحت ہو یا اس کے علاوہ کسی اور سیٹ اپ کے تحت۔ صرف یہی ایک صورت ہے جو مشرق وسطیٰ میں لپکتے جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔ حالات بہت زیادہ گمبھیر ہیں عالمی برادری خصوصاً مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو اس مسئلے کی حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا‘ بصورت دیگر اپنی باری کا انتظار کرنا ہو گا۔