منتخب نمائندوں کی آئینی مدت پوری ہونی چاہئے
فاضل سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے 4 اپریل کو عمران خاں کی درخواست پر چند ہفتے قبل تحلیل کی گئی پنجاب اسمبلی انتخابات کے لئے 14 مئی مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ درخواست مذکور سے قبل اس امر کے لئے 30 اپریل کی تاریخ بتائی گئی تھی جسے پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں نے باہمی مشاورت سے تبدیل کر کے اپنے اقتدار کی آئینی مدت کے خاتمہ کے بعد مورخہ 8 اکتوبر کا اعلان کیا تھا، مذکورہ بالا 3 رکنی بنچ نے اٹارنی جنرل اور حکومت کے دیگر وکلاء کی جانب سے فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرکے اسی 3 رکنی بنچ کے ذریعے درخواست مذکور کی 3 اور 4 اپریل کو سماعت کر کے اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔ قارئین کرام جانتے ہیں کہ معاملہ ہذا پر مارچ 23 کے پہلے ہفتے میں فاضل عدالت موصوف نے 3-2 کے اکثریتی فیصلہ کا اعلان کیا تھا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خاں مندوخیل کے اختلافی نوٹس کی بنا پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس فیصلے کو 4-3 کا اقلیتی ہوتے ہوئے زیر سماعت درخواست مسترد ہونے کا بیان دیا تھا۔ وہ اور پی ڈی ایم آج تک تسلیم کر کے اس کی تشہیر اور اعادہ کر رہے ہیں جبکہ اراکین اتحادی پی ڈی ایم قومی اسمبلی نے 3 رکنی فیصلہ مورخہ 4 اپریل مذکورہ بالا تا حال تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کر کے واضح الفاظ و انداز میں مسترد کر دیا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کے علاوہ پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں کے سر کردہ رہنما بھی موجود تھے۔ نیز دوسرے روز بھی اراکین قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ فیصلہ کے خلاف پیش کی گئی قرارداد منظور کی۔ اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے فاضل سپریم کورٹ کے متعلقہ بنچ سے بار بار اس اہم معاملہ کو فل کورٹ بنچ میں پیش کر کے درخواست کو زیر غور لا کر فیصلہ کرنے کی استدعا کی گئی۔ تاہم ابھی تک کوئی درخواست پیش کرنے کی کوئی خبر یا اطلاع یا پڑھنے میں نہیں آئی اگر ایسا ہوا تو فاضل عدالت درخواست گزار فریق کی استدعا یا دلائل پر غور کر کے کوئی مناسب حکم جاری کر سکتی ہے۔
دوران سماعت معاملہ چند روز قبل پی ڈی ایم کی جانب سے دیئے گئے دلائل میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انتخابات آج کل یا چند ماہ بعد کرانے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ چند ماہ کے عرصہ میں حکومت کے انتظامی امور کی بہتری اور قرب و جوار کے ممالک میں تجارتی سرگرمیوں اور موسمی حالات میں تبدیلیوں سے کوئی قابل کر معاشی تعمیر و ترقی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ نیز ملک میں امن و امان کے قیام سے انتشار و فساد کے شب و روز کی نسبت معاشی توازن بلا شبہ قدرے سیاسی استحکام پیدا کر سکتا ہے موجودہ وفاقی حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کرنا بھی سب متعلقہ اداروں اور اپوزیشن نمائندوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ کیونکہ حکومت اپنے تعمیراتی منصوبے دستیاب عرصے کے دوران ہی زیر غور لا کر اور ان کی پیش رفت کے لئے مطلوبہ وسائل فراہم کر کے ان کو مکمل کر کے ثمر آور بنانے کے اقدمات بروئے کار لا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ آخری مہینوں میں ہر حکمت زیادہ توجہ اور تندہی سے اپنی ذمہ داریاں بروئے کار لاتی ہے۔
ملک کے متعلقہ اداروں اور اپوزیشن رہنماؤں کو بخوبی علم ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت اگست 2023ء میں پوری کر کے اکتوبر میں عام انتخابات کرانا چاہتی ہے تو ایسا کرنے کا اسے جائز آئینی اور قانونی اختیار حاصل ہے۔ اس سے قبل انتخابات کرانے کے لئے اسے مجبور کرنا، سراسر نا مناسب رویہ اور جارحانہ مطالبہ ہے۔ وقت سے قبل دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل حصول اقتدار کی انوکھی خواہش اور مثال ہے۔ اس لئے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی اس کے بجائے انتخابات قومی، اسمبلی کے ساتھ ہی کرانا ضروری اور ترجیحی فیصلہ ہونا چاہئے۔