اک موج سی اٹھی
تھی موت کے جلو میں، لیکن وہ زندگی تھی
تاریک ہو چلی تھی، پر ہاں! وہ روشنی تھی
۔۔۔۔۔
جیسے کبھی فروزاں، تھی شمع کی طرح سے
جاتےہوئے اچانک، ایسے وہ جل اٹھی تھی
۔۔۔۔
کچھ وقت زخم کھانے، بھرنے میں لگ گیاتھا
فرصت جو کچھ ملی تھی، گننے میں کٹ گٸی تھی
۔۔۔۔۔
دل ساتھ بہ گیا تھا، اور جسم رہ گیا تھا
اک موج سی اٹھی تھی، ایسی وہ اک گھڑی تھی
۔۔۔۔۔
ایسا سفر کیا تھا، ایسے سفر کیا تھا
پاٶں میں آبلے تھے، چہرے پہ تازگی تھی
۔۔۔
کچھ بُعد کا تعلق، تھا اس کو زندگی سے
جب آنکھ بند ہوئی ، کھڑکی وہ تب کھلی تھی
۔۔۔۔
کچا سا جو مکاں تھا، گویا وہ اک جہاں تھا
کتنی بڑی تھی ناصر ، چھوٹی سی جو گلی تھی