گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 85
ترکی کے ساتھ بھی ہمارے اتحاد کا رشتہ مضبوط ہے، اور ترکی کے جہد آزما عوام کے لئے ہمارے دلوں میں بہت عزت ہے ۔ خدانہ کرے ترکی پر کوئی بُرا وقت آیا تو ہر پاکستانی اس کی مدد کرے گا۔ترکی نے مطلق العنان سلاطین کا ایک طویل اور پر شکوہ تاریخی دور دیکھا ہے۔ اب وہ صحیح معنوں میں ایک جدید ملک ہے۔ اور صدیوں کی جاگیرداری اورع مطلق العنانیت کے بعد ایک جمہوری ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا ہے۔ اس کے لیڈر جن مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اس کا میرے دل میں بہت احترام ہے، اور اس کے عوام نے اپنی آزادی کی حفاظت جس جسارت اور استقامت سے کی ہے، میرے دل میں اس کی بھی بڑی قدر ہے۔ مجھے یقین بلکہ یقین و اثق ہے کہ ترکی، ایران اور پاکستان کا یہ دفاعی معاہدہ طویل عرصہ تک برقرار رہے گا۔ سینٹو سے جو اہم فائدے حاصل ہو رہے ہیں، وہ اقتصادی روابط اور مواصلات کا نظام ہے۔ آخر الذکر مقصد کے لیے برطانیہ اور امریکہ دونوں نہایت فراخ دلی سے امداد دے رہے ہیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 84 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عراق ایک عرب ملک ہے اور ہم پر یعنی معاہدہ بغداد کے شریک ملکوں پر ہمیشہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ ہم ایک عرب زادہ کو اٹھالے گئے۔ مصر کو ہمارے خلاف سب سے بڑی شکایت ہی عراق کی وجہ سے تھی۔ مصر کا مؤقف تھا کہ عراق کو صرف عرب لیگ میں رہنما چاہیے ۔ معاہدہ بغداد اسے ہر گز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس بارے میں زبردست پروپیگنڈے کی مہم بالآخر شاہ فیصل اور وزیراعظم نوری السعید کے قتل کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔ مصری پروپیگنڈے سے عراق کی شہنشا ہیت تباہ ہو گئی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، عراق، مصر سے آج بھی اتنا ہی دور ہے جتنا پہلے تھا۔
میرا ہمیشہ یہ خیال رہا کہ عراق اگر معاہدہ سے الگ ہونا چاہے تو ہمیں اسے روکنا نہیں چاہیے۔ لیکن معاہدہ کے زبردست حامی خود شاہ عراق اور ان کے وزراء تھے، اور ہمارے لیے ان سے یہ کہنا ممکن نہ تھا کہ وہ معاہدے سے الگ ہو جائیں تاکہ معاہدہ کے اور خود ہمارے خلاف معامذانہ پروپیگنڈہ بند ہو جائے۔ نوری السعید نے سیاسی جماعتوں کی تنسیخ کا حکم دے کر اپنی زندگی کی سب سے بھیانک غلطی کی تھی۔جب یہ حکم نافذ ہوا تو کمیونسٹ پارٹی زیر زمین چلی گئی۔ ہمارا کام عراق کے انجام اور اس کی حالیہ اور آئندہ حکومتوں کے بارے میں قیاس آرائی نہیں۔ ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم رہیں، اور مجھے خوشی ہے کہ ان کے تعلقات واقعی خوشگوار ہیں۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد عربوں کے سعودی عرب ، اُردن، شام اور عراق کے درمیان حصے بخرے کر کے بہت بڑی غلطی کی گئی، چھوٹی چھوٹی ریاستیں عالمی امن کے لیے ہمیشہ زبردست خطرہ ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ مختلف حکمرانوں کے مفادات انہیں ایک دوسرے کے ساتھ متحدہ نہیں ہونے دیتے ۔ آج بھی عربوں کے لیے بہترین صورت یہی ہو سکتی ہے کہ مراکش سے بغداد تک ایک کنفیڈریشن کے تحت متحد ہو جائیں۔
بیشتر مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات جم گئی ہے کہ اسرائیل کی ریاست کو انگریزوں نے جنم دیا ہے اور اس طرح انہوں نے عالمِ عرب کے دل میں خنجر پیوست کر دیا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک افسوسناک نتایج برآمد ہوتے رہے ہیں۔ مغرب ہمیشہ یہودیوں کی پشت پناہی کرتا رہے گا۔ کیونکہ مغربی ملکوں میں ان کی حیثیت بہت مستحکم ہے ، اس صورت حالات سے عالمِ اسلام کے شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے۔ نیویارک کے قیام میں ، میں نے بعض عربوں سے ان کا عندیہ معلوم کرنے کیلئے بات چیت کی تو انہوں نے باہمی سمجھوتہ کے متعلق خیالات کا اظہار کیا، لیکن کوئی عرب دوسرے عربوں کی نکتہ چینی کے خوف سے اپنے دل کی بات علانیہ کہنے کی جرأت نہیں کرتا، اگر اسرائیل کے خلاف عداوت تمام عرب ملکوں کو ایک وفاق میں متحد کر دے، تو فلسطین کا المیہ ایک رحمت ثابت ہو سکتا ہے۔
تاریخ نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ بہت سی مسیحی یا اسلامی طاقتیں، محض اپنے ہم مذہب لوگوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئیں۔ عرب آخر کار اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مذہب ، زبان اور خون کے رشتے انہیں متحد نہیں کر سکیں گے، صحیح سیاسی اتحاد صرف اقتصادی اور دفاعی میدان میں تعاون سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عرب سیاست دان اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے۔ مسٹر فوازی کیلئے میرے دل میں جو احترام ہے یہاں اس کا اعتراف ضروری معلوم ہوتا ہے ، میں جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تو اس وقت وہ مصر کے وزیر خارجہ تھے۔ فوازی صدر ناصر کے بہت متحمل مزاج اور دانش مند مشیر ہیں۔
اشتراکی چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں پاکستان ان ملکوں میں شامل تھا، جنہوں نے ۱۹۴۹ء میں عوامی جمہوریہ چین کو اس کے قیام کے بعد سب سے پہلے تسلیم کیا، اس کے باوجود قوم پرست چین نے بین الاقوامی طورپر ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ میں جس طرح ہماری مدد کی، اس کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے۔ فارموسا کی حکومت نے سلامتی کونسل میں، ہمیشہ ہمارے حق میں ووٹ دیا اور ہماری مقدور بھر امداد کی۔ اس زمانہ میں ، جو ہندوستان اور چین کی دوستی کا دورِ شباب تھا ۔ ہمارے سفیر پیکنگ اور ماسکو دونوں مقامات پر کشمیر کے لیے حمایت حاصل کرنے میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔ وہ جب بھی اُن سے رجوع کرتے دونوں ملک یہی رویہ اختیار کرتے کہ پاکستان اور ہندوستان کو اپنے تنازعے آپس میں ہی طے کر لینے چاہیں۔لیکن بعد میں جب پاکستان نے حکمت عملی بدلی اور چین کا دورہ کای تو صورت حال ہمارے حق میں بہتر ہوگئی ۔یہ خوشگوار ابتدا پچاس کی دہائی میں ہوئی۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاکستان اور چین کے درمیان پہلا قریبی تعلق ۱۹۵۶ء میں اس وقت قائم ہوا، جب وزیراعظم سہروردی نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ ہم تمام ہمسایہ ملکوں سے قریبی تعلقات پیدا کرنا چاہتے تھے، اور یہ صحیح سمت میں ایک نہایت اہم قدم اٹھایا گیا تھا۔ میری اہلیہ اس دورہ میں وزیراعظم سہروردی کی پارٹی میں شامل تھیں۔وہ بھی چو این لائی سے ملیں۔ انہوں نے اس پر جوش خیر سگالی اور والہانہ مہماں نوازی کے بارے میں مجھے بتایا ، جس کا مظاہرہ وزیراعظم کے دورہ میں ہر جگہ کیا گیا تھا۔ پاکستان چین کے پاس ایک دوست کی حیثیت سے گیا تھا اور وہ مغربی ممالک اور چین کے درمیان ایک رابطہ کی حیثیت سے کام کرنا چاہتا تھا۔ ہم نے کسی بھی شخص کے ذہن میں کوئی غلط فہمی یا بدگمانی پیدا نہیں کی۔ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ چین کو امریکہ کے خلاف بھڑکائیں ۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں پر نہ سکندر مرزا یقین رکھتے تھے ، نہ میں اور نہ سہروردی ۔
کچھ عرصہ بعد مسٹر چو این لائی نے پاکستان آنے کی دعوت منظور کر لی ۔ یہاں ان کا خیر مقدم انتہا ئی گرم جوشی اور دوستی کے مخلصانہ جذبات کے ساتھ کیا گیا۔ میں مغربی پاکستان کے پورے دورہ میں ان کے ساتھ تھا اور میری ان سے خوب کُھل کے باتیں ہوئی تھیں، مسٹر چو این لائی بڑی پرُکشش شخصیت کے مالک ہیں، اور اس میں دوسروں کو اپنا لینے کی خوبی شامل ہے ۔(جاری ہے )