شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 74
وہ حالات کے سیلاب میں بہنے والوں میں سے نہیں تھا اس نے ایک لمحہ ضائع نہیں کیا اور ظلمت اور گمراہی کے اندھیروں کے سامنے پوری استقامت سے کھڑا ہوگیا اور اپنے عمل سے لوگوں کو بتانا شروع کر دیا۔
سال کے چار دہم سینکڑے پلکوں پہ رکھوں
میری تہذیب کا حاصل ہیں عقائد میرے
پیر صاحب اپنے اجداد کے نقشِ کف پاپہ چلتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ ان کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا ہے اس میں پاکیزگی ہے۔ سچائی، دیانت ہے ہمت اور قوت ہے۔ اسی خون کا اسی ماں باپ کی تربیت کا کرشمہ تھا کہ پیر صاحب مشکل ترین حالات میں اپنے کام کو آگے بڑھاتے چلے گئے۔ رہ یار کو قدم قدم یادگار بنانے والی اس شخصیت کا لب و لہجہ اور اس کی سائیکی اپنے ہر عمل میں یہی بتاتی رہی۔
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
والدہ سنتِ نبوی کا نمونہ تھیں مری
اور مضبوط عقیدہ کے تھے والد میرے
پیر صاحب نے سب سے پہلے ان لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا جن کے اندر کہیں ایمان کی کوئی رمق بچی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب یہ سب اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں گے مگر ایسے احباب کی اشد ضرورت تھی جو ان کے شانہ بشانہ چل کر لوگوں کو دین کی طرف لانے میں ان کی مدد کریں۔ پیر صاحب کی گوہر شناس نگاہ نے بہت کم وقت میں ایسے ساتھی تلاش کر لیے جن کے دلوں میں ابھی دین محمدی کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور پھر ان لوگوں کی طرف توجہ شروع ہوئی جن کی زندگیاں شراب کی بوتل میں بند ہو چکی تھیں۔ جو سینما بینی کو خوبصورتی سمجھتے تھے۔ جنہیں سرعام بے حیائی میں کسی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ان لوگوں نے بھی پیر صاحب کو اپنے عمل سے باز رکھنے کی بڑی کوشش کی۔ ان کے راستوں میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کیں مگر پیر صاحب بھی حوصلوں اور ارادوں کی مضبوط چٹان ثابت ہوئے۔ جنہیں کوئی ایک انچ بھی سرکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بلکہ دنیا خود پیر صاحب کے رستے پر چلنے لگی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا
حلقہ احباب میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ لوگ جو کل تک شراب و شباب میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں بھی روشنی کی کرن دکھائی دینے لگی اور دنیا پیر صاحب کے اردگردجمع ہوتی چلی گئی۔ یورپ کے عبرت سرائے جسم و جاں میں مسلمانوں کی موجودگی کا احساس ہونے لگا اور اب ضرورت اس بات کی محسوس ہونے لگی کہ ان لوگوں کو کیسے منظم کیا جائے اور ایک تحریک کی صورت میں اس کام کو آگے بڑھایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک روشنی پہنچ سکے۔
پیر پیراں حضرت سید معروف حسین شاہ نوشاہی نے زندگی کو خود کی امانت سمجھا اور احساس کے ساتھ گزار رہے ہیں کہ
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر و یعت مژگان یار تھا
ان کے شب و روز جس جہاد میں گز ر رہے ہیں اس کی تفصیل آگے آرہی ہے پہلے ذرا شعروں میں ذرا جامع تعارف ہو جائے۔
پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی کے متعلق اہل علم و قلم نے بہت کچھ لکھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ذات کے لیے سب سے بڑا اعزاز سیدابوالکمال برق نوشاہی کی نظم ہے جو انہوں نے ہالینڈ میں ان کے لیے کہی تھی۔ قطب ارشاد سید ابوالکمال برق نوشاہی وہ شخصیت ہیں جن کے ہاتھ پر پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی نے بیعت کی تھی وہ ان کے بڑے بھائی بھی تھے اور جب کوئی مرشد ، کوئی بڑا بھائی اپنے مرید یا اپنے چھوٹے بھائی کے متعلق نظم لکھتا ہے تو وہ اسی صورت میں لکھی جا سکتی ہے جب وہ مرید وہ چھوٹا بھائی اپنے ذات میں ایسی صفات رکھتا ہو کہ جن پر مرشد ناز کرسکے۔ قطب ارشاد ابوالکمال برق نوشاہی لکھتے ہیں
شب الحاد مغرب ہوگئی سہاب پا جس سے
وہ کی معروف نوشاہی نے ایماں کی سحر پیدا
نہاں امروز روشن میں ہے اک فردائے روشن تر
تماشا کر اگر ہے دیدہ و دل میں نظر پیدا
کئی صدیوں کی ظلمت نور سے جنکے گریزاں ہو
نہیں ممکن کہ ہوں ہر دور میں وہ راہبر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہر چمن میں دیدہ ور پیدا
قطب ارشاد ابوالکمال برق نوشاہی نے اس نظم میں پیر صاحب کی جو صفات بیان کی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پیر صاحب میں وہ تمام صفات موجود ہیں۔ پیر صاحب واقعی ایک رہبر کامل ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں اقبال کا یہ شعر کوڈ کیا جا سکتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
قطب ارشاد ابوالکمال برق نوشاہی کے علاوہ بھی بہت سی شخصیات نے پیر صاحب کی مدح میں بہت کچھ لکھا ہے۔ قمر یزدانی کا نذرانہ عقیدت بھی اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ کیسے کیسے قادر العلوم شاعر پیر صاحب کی عظمتوں کے معترف ہیں اور ان کے مدح خواں ہیں۔ قمر یزدانی کہتے ہیں
امام عارفاں فخر المشائخ
شہ روحانیاں فخر المشائخ
وقار خسرواں فخر المشائخ
مطاع این وآں فخر المشائخ
محبت کی زباں فخر المشائخ
صداق کا نشاں فخر المشائخ
خدا کے ترجماں فخر المشائخ
خودی کے رازداں فخر المشائخ
خطیب حق بیاں فخر المشائخ
فقیہہ نکتہ داں فخر المشائخ
شہید عشق محبوب دو عالم
قرار عاشقاں فخر المشائخ
وہ سرخیل گر وہ اغنیاء ہیں
ہیں مرد راہ داں فخر المشائخ
انیس دردمنداں زمانہ
سبھی کے مہرباں فخر المشائخ
جہاں میں اولیاء و اتقیا کے
امیر کارواں فخر المشائخ
وہ اخلاق و محبت کے بلا شک
ہیں بحر بے کراں فخر المشائخ
حریم برق نوشاہی کی زینت
وقار خاندان فخر المشائخ
بلاشک ہیں جمال قادریت
ہیں معروف جہاں فخر المشائخ
ہے نوشہ پور شریف ان سے درخشاں
چراغ ضوفشاں فخر المشائخ
معین و احسن اور سید حسن کے
طراوت بخش جاں فخر المشائخ
بیاں اوج مرا تب کا ہو کیسے
ہیں یکتائے زماں فخر المشائخ
ہے ان سے نوشہ پور کی زیب و زینت
مہاربے خزاں فخر المشائخ
ہو پاکستان یا برطانیہ بھی
بہر سو ضوفشاں فخر المشائخ
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
کہاں ہم اور کہاں فخر المشائخ
قمر یزدانی ان کا مدح خواں ہے
ہیں ان کی جان جاں فخر المشائخ
قمر یزدانی کے اس نذرانہ عقیدت کو پڑھ کر اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ پیر صاحب روحانی سطح پر کس مقام پر فائز ہیں اور ان کے چاہنے والے انہیں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔(جاری ہے)
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 75 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں