بنگلہ دیش میں عوام دوست انقلاب اُمت مسلمہ کیلئے نیک شگون؟

بنگلہ دیش میں عوام دوست انقلاب اُمت مسلمہ کیلئے نیک شگون؟
بنگلہ دیش میں عوام دوست انقلاب اُمت مسلمہ کیلئے نیک شگون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

پانچ اگست2019ء کشمیریوں کے حقوق غضب کرنے کا دن اور پانچ اگست2024ء بنگلہ دیش کی عوام کے لئے اُمید کی کرن بن کرطلوع ہوا ہے۔ پانچ اگست2024ء کو جب پورا پاکستان اور کشمیر اپنے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی مناتے ہوئے بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے حقوق سلب کرنے اور ظلم ڈھانے کی مذمت کر رہا تھا اس دن بنگلہ دیش کی بھارت نواز حکمران حسینہ واجد بھارت فرار ہو رہی تھیں۔الجزیرہ ٹی وی خبر دے رہا تھا ڈھاکہ سید ابو الامودودیؒ کے فکری بیٹوں کے قبضے میں آ چکا ہے۔ بنگلہ دیش سے پاکستانی عوام کا رشتہ ایسا ہے1971ء کا دُکھ کسی صورت بھولانے کے لئے تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے پانچ اگست سے آج9اگست تک اقتدار کے ایوانوں سمیت اپوزیشن کے گروپوں کے ساتھ ٹی وی شو، کالم نویس، سوشل میڈیا کا موضوع بنگلہ دیش کا انقلاب ہے،کوئی پاکستانی حکمرانوں کو عبرت حاصل کرنے کی تلقین کر رہا ہے،کوئی مقتدرہ کو سبق حاصل کرنے کا درس دے رہا ہے،20سال تک سیاہ سفید کی مالک شیخ مجیب الرحمن کی جانشین حسینہ واجد اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکی ہے اپوزیشن جماعتوں کو کارنر کرنے،پاکستان اور پاک فوج سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ رُک چکا ہے۔بھارت نوازی اور پاکستان دشمنی کے منصوبوں کا ڈراپ سین ہو چکا ہے یہ عام بات نہیں ہے، چند نوجوانوں کی جدوجہد بھی نہیں ہے یہ طویل داستان ہے جس کے بہت سے پہلو آہستہ آہستہ منظر عام پر آئیں گے۔ بنگلہ دیش کی سڑکوں پر لگے بت پاش پاش نہیں ہوئے انڈیا کے خواب چکنار چور ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیشی آرمی کی دور اندیشی کام دکھا گئی ہے طلبہ اور عوام کے مطالبے پر ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔

پانچ اگست1999ء کو کشمیریوں کی جدوجہد کو سبوتاز کرنے اور ان کی شناخت مٹانے والے بھارت کی مکمل پشتی بانی کے باوجود بنگلہ دیش کی عوام اور نوجوانوں کی طاقت نے حسینہ واجد کا 20سالہ حکمرانی کا تختہ کر دیا ہے اپوزیشن رہنماء خالدہ ضیاء کو رہا کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لئے پابندیاں لگانے والی جابر حکمران ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئی ہے، 15سال بعد جماعت اسلامی کے دفاتر دوبارہ کھل گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے پاکستان کے ٹکڑے کرنے والوں کے مجسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہیں۔ عوامی رائے کا خون کرنے والی شیخ حسینہ واجد کیفر کردار تک پہنچی ہیں، بھارت میں رہیں یا سعودی عرب،لندن یا امارات میں، بنگلہ دیش کے عوام نہال ہیں، ان کے مطالبے پر ڈاکٹر یونس کی قیادت میں عبوری حکومت بن چکی ہے۔ پاکستانی ٹی وی اینکر کے ٹی وی ٹاک شو میں مسلمانوں سے بار بار پوچھے گئے سوالات پر حیرت ہو رہی تھی،جس میں اینکر پوچھتے ہیں بنگلہ دیش میں آنے والے انقلاب سے پاکستان کو کوئی سبق ملتا ہے، بھلے لوگ کیا جواب دیں گے؟ البتہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلام آباد دھرنے میں بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی سول نافرمانی کی تحریک کی کامیابی پر بنگلہ دیشی عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں  کو متنبہ کیا ہے؟ اور کہا ہے عوام کو ریلیف دو اِس سے پہلے کہ میں بھی بل جمع نہ کرانے اور سول نافرمانی کی عوام کو دعوت دوں۔ بنگلہ دیش کی بھارت نوازی اور شیخ حسینہ واجد کا مودی حکومت سے گٹھ جوڑ گزشتہ 20 سے ان کے پاکستان دشمن منصوبے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں  ہیں، 400 سے زائد شہداء،کامیاب طلبہ تحریک کے سربراہ اسلامی چھاترو شبر کے ناظم اعلیٰ ناہید اسلام جماعت اسلامی کے امیر اور خالدہ ضیاء کے دو ٹوک اعلانات نے آرمی چیف اور صدر بنگلہ دیش کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ شیخ حسینہ کے قریبی عزیز آرمی چیف اور شیخ حسینہ کے نامزد صدر بنگلہ دیش کو واضح انداز میں کہہ دیا ہے فوج کی نامزد کردہ عبوری حکومت تسلیم نہیں کریں گے، ہم تمام سیاسی،سماجی حلقوں، سٹیک ہولڈر سے مشاورت کر کے لائحہ عمل دیں گے الحمد للہ اِس میں وہ کامیاب  ہو چکے ہیں۔امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش ڈاکٹر شفیق الرحمن نے بنگلہ دیشی عوام اور نوجوانوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا اللہ کی بارگاہ میں سرسجود ہونے کا وقت ہے، استفسار کرنے اور مغفرت مانگنے کا وقت ہے، نعرے بازی اور ڈھول بھنگڑا کی ضرورت نہیں ہے۔اپوزیشن لیڈر کئی سال سے پابند ِ سلاسل رہنے والی خالدہ ضیاء نے عام معافی، کسی سے انتقام نہ لینے کا اعلان کیا ہے،انٹیلی جنس چیف رازوں کے ساتھ فرار ہوتے گرفتار ہو چکا ہے۔ پانچ اگست 2024ء کے بنگلہ دیش میں آنے والے انقلاب کو اگر تاریخ کے آئنہ میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے قاتل حسینہ واجد کا استعفیٰ اور ملک سے فرار چند دِنوں میں ہونے والے احتجاج یا مظاہروں کا نتیجہ نہیں ہے قیام پاکستان جو بھارت سمیت مغرب کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا پاکستان بننے کے دو سال بعد ہی 23جون 1949ء کو مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے لیڈر عبدالحمید بھاشانی اور شیخ مجید وغیرہ نے علیحدہ پارٹی کی بنیاد رکھی تھی جس کا نام آل پاکستان عوامی مسلم لیگ رکھا گیا تھا۔1953ء میں آل پاکستان اور مسلم لیگ کا لفظ اُڑا کر اسے عوامی لیگ کا نام دے دیا گیا اس پس منظر سے عوامی لیگ کی تشکیل میں مضمر ایک بنیاد واضع ہوئی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی بیٹی حسینہ شیخ کی شروع دن سے پاکستان توڑنے والوں کے لئے ملازمت میں 30فیصد کوٹہ، پاک فوج  اور پاکستان کے حمایتیوں کے لئے پھانسیاں منشور کا حصہ رہی ہیں۔کوٹہ سسٹم ہی نوجوانوں میں بددلی اور بھارت نوازی کا ردعمل بن کر سامنے آیا اور تحریک کا آغاز ہوا۔

1971ء شروع ہوا تو بھٹو، مجیب اور جنرل یحییٰ کے درمیان تناؤ کی فضاء پیدا ہوئی انجام کار یکم مارچ سے لے کر25مارچ 1971ء تک عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں غیر بنگالیوں کا قتل ِ عام کیا۔تاریخ بتاتی ہیں 16دسمبر1971ء کو بھارتی فوج کے تعاون سے مشرقی پاکستان الگ کر کے بنگلہ دیش بنا لیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے اقتدار سنبھال کر مکتی باہنی کے لوگوں کو ملازمتیں دینے کے لئے باقاعدہ کوٹہ مخصوص کیا۔1972ء میں ڈھاکہ پہنچتے ہی پارٹی کا مسلح گروہ تیار کیا جس کا ٹارگٹ پاکستان سے پیار کرنے والے لوگ تھے ان میں جماعت اسلامی سرفہرست تھی۔ البدر اور الشمس کے 10ہزار نوجوانوں کی شہادت سے کون واقف نہیں۔ انہی قربان ہونے والے نوجوانوں نے چھ ماہ تک پاکستانی پرچم ڈھاکہ یونیورسٹی سے اترنے نہیں دیا۔ پاکستان سے محبت کی سزا 90 سالہ امیر جماعت اسلامی محترم اعظم کو قید و بند کی شکل میں دی گئی ان کا انتقال جیل میں ہوا۔ مطیع الرحمن نظامی، اظہر السلام، ابو صالح، عبدالقادر،سید قمر الزمان کو پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ اہل پاکستان کے علم میں ہونا چاہئے1971ء میں جب سانحہ ہوا تمام ادارے خاموش ہو گئے بنگلہ دیش نے یہی راہ  بنا لی پاکستانی فوج اور سیاست دانوں نے اپنی دنیا بسا لی۔ ایک جماعت اسلامی تھی جس کو معافی نہ ملی اس کے ذمہ داران کو قید کیا جاتا رہا، پھانسیاں دی جاتی رہیں ان کا قصور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا تھا۔گزشتہ15 سال سے جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی اور دفاتر بند تھے ان کو ایک ہی فقرہ کہنے پر معافی کا اعلان تھا پاکستان مردہ باد کہہ دو سزائیں معاف۔ اسلامی چھاترو شبر کے نوجوان جو پانچ اگست2024ء کے انقلاب کے روح رواں ہیں ان کو سلام کرنے کو دِل کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کے لئے سبق نہیں ہے عبرت ہے۔ پانچ اگست کو جب قاتل حکمران فرار ہو کر اب تک پناہ ڈھونڈ رہے ہیں انہیں کوئی پناہ  دینے کے لئے تیار نہیں۔ فوج کنٹرول سنبھال چکی تھی پھر بھی چار لاکھ کا جم غفیر سڑکوں پر تھا۔اب تو حسینہ واجد کے جنگجو نوجوانوں کی لاشیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں عبوری حکومت حلف لے چکی ہے، عوامی دباؤ موجود ہے،نوجوان بنگلہ دیش کا مستقبل سنوارنے کے لئے پُرعزم ہیں۔بھارت نوازی دم توڑ چکی ہے پاکستان سے محبت کرنے والوں پر پابندیاں دم توڑ چکی ہیں۔بنگلہ دیش کا مستقبل روشن ہے۔10جولائی سے اب تک کی جدوجہد میں شریک نوجوانوں کو سڑکوں پر مشروب پلانے والی ماؤں کو بھی سلام اور  قیام پاکستان سے لے کر پانچ اگست تک پاکستان زندہ باد کے نعرے کو زندگی کا مشن بنانے والوں کو بھی سلام۔ اللہ کرے بنگلہ دیش میں آنے والا انقلاب اسلامی تحریکوں اور اُمت مسلمہ کے لئے نیک شگون ثابت ہو۔ 

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           

٭٭٭٭٭

  

مزید :

رائے -کالم -