شاہ رخ اچھی کرکٹ کھیلتا ہے،ڈاکٹر نے مجھے دھوپ کا چشمہ لگانے کی ہدایت کی، ابا جی نے مجھے دفتر اپنے ساتھ لے جا ناشروع کر دیا تاکہ میرا دل بہلا رہے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:44
ثمینہ اور شاہد کی آمد؛
شور کوٹ میں میری چھوٹی بہن ثمینہ حمید(پیار کا نام ”بے بی“) ستمبر1964ء(اب ثمینہ ندیم) کوپیدا ہوئی۔ اس کی شادی فیصل ندیم سے ہوئی جو میرے دور کے کزن ہیں۔وہ بنک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور آج کل کنسٹرکشن کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس کے 3 بچے 2 بیٹیاں، صبا فیصل(شادی کے بعد آسٹریلیا سٹیل ہو چکی ہے۔ جہاں اس کا میاں علی ایک کمپنی کا ریجنل ہیڈ ہے۔ ان کے 2بچے ہیں بیٹا نائیل اور بیٹی صفا۔) دوسری بیٹی(بشریٰ فیصل) لاہور میں رہتی ہے۔ اس کی شادی عثمان سے ہوئی جو پیشہ کا انجینئر ہے اور نیسپاک جوائن کرنے سے پہلے امریکہ میں تھا۔ ان کی 2 بیٹیاں لائل اور جنت ہیں۔) اور ایک بیٹا محمد علیٰ جس کی شادی عرفہ سے ہوئی۔ اس کا بیٹا محمد ولی ابھی ایک سال کا ہے۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی شاہد احمد حمید(پیارکا نام”نونی“)بھی اگست1965ء کو یہیں پیدا ہوا۔ یہ بنک میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کی شادی صدف سے ہوئی جو ایک ناعاقبت اندیش خاتون ہے۔ اس کے آنے سے ہمارے گھر میں بڑے مسائل پیدا ہوئے۔ اللہ اسے ہدایت دے آمین۔ ان کے 5بچے ہیں۔ 2 بیٹیاں (مریم اور ماہ رخ) دونو ں پڑھتی ہیں۔ ماہ رخ تو بہت ماشا اللہ بہت ذہین بچی ہے۔ 3بیٹے(عامر، شاہ رخ اور سعد)۔ یہ بہنوں سے چھوٹے ہیں۔ اللہ ان سب کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔ شاہ رخ اچھی کرکٹ کھیلتا ہے۔
فور لفٹ اپرئیٹر؛
آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے مجھے دھوپ کا چشمہ لگانے کی ہدایت کی۔ ابا جی ہمیشہ سے ہی چشمہ استعمال کرتے تھے۔ مجھے بھی انہوں نے اپنے باس ریکسن صاحب سے عینک منگوا کر دی تھی۔ ڈاکٹر نے ابا جی کو بتا دیا تھا؛”اس بچے کی ایک ہی آنکھ بچی ہے اس کی پڑھائی ایسی ہو جس سے اس کی آنکھ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔“ ابتداء میں ابا جی نے مجھے دفتر اپنے ساتھ لے جا ناشروع کر دیا تاکہ میرا دل بہلا رہے۔ میں شروع سے ہی والد کے بہت قریب تھا اور ان سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتا تھا۔ابا جی کے دفتر کے سبھی لوگ مجھ سے بڑی شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے۔ ان میں مسٹر ریکسن سب سے نمایاں تھے۔ مجھے فورکلفٹ اچھا لگتا تھا۔ انہوں نے مجھے10 روپے تنخواہ پر لفٹ آپریٹر بھرتی کر لیااور اپنی بیٹی ”کیتھرین“ جو میری ہی ہم عمر تھی کو بھی ساتھ دفتر لانے لگے تاکہ ہم مل کر کھیلیں۔ ایک روز میں نے اس کے بال کھینچے اور شاید مارا بھی۔ وہ رونے لگی۔ ابا جی مجھے ڈانٹنے لگے۔ مسٹر ریکسن دیکھ رہے تھے آئے اور ابا جی سے کہا”حمید! کیوں ڈانٹ رہے ہو۔ بچے ہیں ابھی لڑے ہیں ابھی پھر کھیلنے لگیں گے۔“ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور ہمیشہ hi son, how are you کہہ کر بلاتے تھے۔ میں بھی کچھ کچھ انگریزی بولنے لگا تھا۔ وہ کیلی فورنیا امریکہ کے رہنے والے تھے۔ ایک بار جب وہ چھٹیوں پر گئے توابا جی نے میرے لئے سرخ رنگ کی کار، نیلے اور سفید رنگ کی ٹرائی سائیکل اور میری بہن فرح کے لئے بار بی ڈول منگوائی تھی۔اصرارکے باوجود مسٹر ریکسن نے میر ے والد سے ان چیزوں کے کوئی پیسے نہیں لئے تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔