پیرنے اپنی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلق بنانے والے کی بہن پر جنّ چھوڑ دیا ، انتہائی شرمناک اور عبرتناک واقعہ
انتقام بھی کیا چیز ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ انسانوں سے جب کوئی اپنا انتقام لینا چاہتا ہے تو وہ اسکی زندگی اجیرن کرنے کے لئے کوئی ایسی حرکت کرتا ہے کہ اسکی روح تڑپ اٹھتی ہے ۔اس کے لئے انسان ہر حربہ استعمال کرتا ہے ۔وہ خود ظاہری اسباب کو بطور انتقام استعمال کرنیکی بجائے جادو ٹونہ بھی استعمال کرتا ہے اور کئی بار تو وہ جنات کو اس کام کے لئے استعمال کرتا ہے ۔میں جب بھی اس پہلو پر سوچتا ہوں تو کوئی نہ کوئی نیا واقعہ سوچ کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔
چند دن پہلے کی بات ہے ،میں ایک بزرگ کے پاس بیٹھا تھا ،ماورائی باتوں کا سلسلہ چلا تو بتانے لگے کہ انہیں خود ایک ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑچکا ہے ۔بات کو کھول کر بتانے لگے کہ ’’ چالیس سال پہلے جب میں بیس برس کا جوان تھا مجھے ایک لڑکی پسند آگئی لیکن وہ میری بیوی نہ بن سکی ۔اسکی شادی ایک امام مسجد سے ہوگئی ۔وہ دوسرے محلے ہی میں رہتا تھا ۔لڑکی کا نام شمائلہ تھا ۔میری کپڑے کی دکان تھی۔شادی کے چارماہ بعد وہ برقعہ پہنے اپنی نند کے ساتھ میری دوکان پر کپڑے خریدنے آئی۔پہلے تو میں نے اسکو نہیں پہچانا لیکن اسکی بے قراری دیکھ کر میں چونک گیا اور جب غور کیا تو مجھے اسکی آنکھ کے بائیں تل سے پتہ چل گیا کہ وہ شمائلہ ہی ہے۔اس نے نند کو خریداری کرائی اور خریداری سے زیادہ سے پیسے بن گئے تو کہنے لگی کہ باقی پیسے آپ کو ایک دو دن میں خود پہنچادوں گی۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔میرے لئے تو یہ بات قابل قبول تھی۔
مجھے یقین تھا کہ شمائلہ نے جان بوجھ کر کپڑ وں کا ادھار کیا ہے۔وہ مجھ سے پیسے واپس کرنے کے بہانے ملنا چاہتی تھی۔ایسا ہی ہوا ۔دو روز بعد وہ آئی اور پیسے واپس کرنا چاہے تو میں نے نہیں لئے ۔اس وقت کوئی ا ور گاہک نہیں تھا ،شمائلہ نے پہلے تو شکوے شکایات کئے کہ تم ہرجائی ہو کیونکہ میں نے شادی کے لئے زور نہیں ڈالا تھا ۔اسکی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ شوہر کے ساتھ خوش نہیں ہے ۔
اس دن کے بعد وہ ہر ہفتہ کسی نہ کسی بہانے دوکان پر آجاتی ،ہم باتیں کرتے ،اسکے لئے جوس منگواتا اور کبھی پیزہ بھی منگوا لیتا ۔مہینے میں ایک ادھ بار اسکو کوئی سوٹ بھی دے دیتا ۔اسکی نند اس پر حیران ہوکر سوال بھی کرتی تھی لیکن اسکی نند کو بھی ہر دوسرے ماہ ایک سوٹ مل جاتا تو وہ زیادہ سوال نہ کرتی ۔یونہی ہم دونوں میں تعلق بڑھتا چلا گیا ۔
اس دن چھٹی کادن تھا ۔میری ایک ہی چھوٹی بہن تھی ،نور فاطمہ ۔پیار سے اسکو نوری کہا کرتا تھا ۔میری بڑی بے حد لاڈلی تھی۔اللہ اسکو صحت عطا فرمائے،ابھی حیات ہے اور بچوں والی ہے ۔شام کا وقت تھا ۔اس نے خوشبو والا تیل بالوں میں لگایا ہوا تھا ۔اچانک اس نے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئی ۔ہم سب پریشان ہوگئے ۔اسکو تھوڑی دیر بعد ہوش آگیا لیکن جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اسکی آنکھیں سرخ اور آواز بھاری ہوگئی تھی۔ایسا لگ رہا تھا کوئی جنّ اسکے اندر بول رہا ہے ۔یونہی عشاء تک اسکی یہی حالت رہی ۔لیکن عشا کے بعد وہ ٹھیک ہوگئی۔ہم نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا تھا تو اس کو کچھ یاد نہیں تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے ۔دو روز تک یہی کام ہوتا رہا ۔مغرب کے وقت اسکی حالت خراب ہوجاتی اور عشا ء تک یہی عالم رہتا۔
ایک دن شمائلہ میری دوکان پر آئی تو میں نے اسکو نوری کی طبیعت کے بارے بتایا تو کہنے لگی کہ اسکے شوہر تعویذات کرتے ہیں اورجادو کا علاج بھی کرتے ہیں ۔انکے پاس لے جاو بہن کو کیونکہ وہ صرف امام مسجد نہیں پیر بھی بن چکے ہیں۔۔۔۔
میں نے اسی شام نوری کو ساتھ لیا اور شمائلہ کے شوہر کبیر محمود کے پاس لے گیا ۔ اس نے میری خوب آو بھگت کی ۔شاید اسکو شمائلہ نے بتایا ہوگا کہ نوری لوگ اسکے محلہ دار ہیں اس لئے وہ بڑا خوش اخلاقی سے ملا ۔
اس نے ایک تعویذدیا اور کہا کہ نوری پر طاقتور جنّ نے قبضہ کرلیا ہے ۔اور جلد نہیں جائے گا ،علاج جاری رکھنا ہوگا ۔اس نے کہا کہ وہ اگلے دن خود ہمارے گھر آئے گا تاکہ ہمارے گھر کا جائزہ لیکر سحری اثرات ختم کردے ۔اگلے دن ظہر کے بعد وہ آیا اور سارے گھر کا جائزہ لینے لگا تو اچانک نوری کی حالت پھر غیر ہوگئی۔اس نے فوری ہمیں کمرے سے نکال دیا اور ایک گھنٹہ تک نوری کا جنّ اتارتا رہا ۔اس دوران ہم اندر سے آنے والی آوازوں کوسنتے رہے ۔پیر کبیر کے ساتھ کوئی انتہائی بھاری اور غصیلی آواز میں باتیں کررہا تھا لیکن اسکی زبان کی ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی۔
نوری کا علاج کرتے ہوئے جب تین مہینے گزر گئے تو کوئی خاص فرق نہ پڑا۔چند دن وہ ٹھیک رہتی پھر دورہ پڑجاتا اور ہم پیر کبیر کو بلالاتے اور وہ اسکا بند کمرے میں علاج کرتا ۔اس دوران شمائلہ دوکان پر آتی تو میں شکوہ کرتا کہ نوری کو علاج سے مکمل فائدہ نہیں ہورہا ۔اتفاق سے ایک دن ایک جاننے والے نے مجھے بوڑھ والے پیر صاحب کے بارے بتایا کہ وہ جنات کی کاٹ کرنے میں بڑے ماہر ہیں۔میں نوری کو لیکر ان کے پاس گیا تو بوڑھ والے پیر نے جنّ کی حاضری لگادی اور نوری کے جنّ سے پوچھنا شروع کردیا کہ وہ اسکو تنگ کیوں کرتا ہے ۔پہلے تو وہ ضد پر اڑا رہا لیکن پیر صاحب کا جلال دیکھ کر وہ عاجز آگیا اور اس نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ’’ اس کو کہو کہ یہ میرے آقا کی بیوی سے تعلق توڑ لے ،میں اسکی بہن کو چھوڑ دوں گا‘‘
پیر صاحب نے چونک کر اس سے مزید سوال کئے تو اس نے اگل دیا کہ اسکو عامل امام مسجد نے نوری پر مسلط کیا تھا کیونکہ اسکا یہ بھائی انکی بیوی شمائلہ کے ساتھ حرامزدگی کرتا ہے۔پیر صاحب نے میری جانب دیکھا اور حقیقت پوچھی تو میں نے اعتراف کرلیا اور کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ شمائلہ سے تعلق توڑ لوں گا اس لئے وہ بھی نوری کی جان چھوڑ دے۔ہم میں معاہدہ ہوا اور یوں پیر کے جنّ نے میری بہن کی جان چھوڑ دی۔پیر صاحب نے مجھے نصیحت کی اور کہا کہ جوکسی کی بہن بیوی پر بری نظر رکھتاہے انکے اپنے گھر میں بھی چور گھس جاتاہے اسلئے عافیت اسی میں ہے کہ کسی کی امانت میں خیانت نہ کی جائے تو انسان کو کسی کے انتقام کا نشانہ نہیں بننا پڑتا ۔ (nizamdaola@gmail.com )
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔