اڑتالیسویں قسط،بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ
آگے چل کر ایک اور مقام پر مولوی ابو ظفر ندوی لکھتے ہیں:
’’دیہند، منصورہ سے بڑا شہر ہے ، یہاں بکثرت، تروتازہ اور پاکیزہ باغات ہیں، جو مسطح زمین پرپھیلے ہوئے ہیں۔ دریا بھی بکثرت ہیں۔ بارش بھی خوب ہوتی ہے۔ یہ شہر مجموعہ اضداد ہے یہاں کے درخت لمبے لمبے ہوتے ہیں۔ پھلوں کی پیداوار بھی اچھی ہے چیزوں کا نرخ بھی ارزاں ہے۔ چنانچہ شہد ایک درہم کا تین من (ایک من عربی مساوی ۴۶ تولے، موجودہ وزن تقریباً دو سیر انگریزی) ملتا ہے۔ اس کے بعد روٹی کے متعلق تو سوال ہی بیکار ہے۔ یہاں موذی جانور نہیں ہے۔ تمام شہر بادام اور اخروٹ کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ کیلے اور دوسرے ترمیوؤں کی بڑی کثرت ہے ۔ ہوا مرطوب ہے گرمی بھی خوب پڑتی ہے۔ مکانات لکڑی اور نرکل کے ہیں جن میں کبھی آگ بھی لگ جاتی ہے جیسے مقام سابور(ایران) میں ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے چہروں سے امارت ٹپکتی ہے اور وہ بری باتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ غیر مسلموں کی آبادی بہت زیادہ ہے او مسلمان بہت کم ہیں پھربھی ان کے لیے ایک الگ حاکم مقرر ہے جو ان پر اسلامی طریقہ سے حکومت کرتا ہے۔‘‘
سنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آگے چل کر ایک مقام پر پھر دیہند کا ذکر ان الفاظ میں آگیا ہے۔
’’ہندوستان کی طرف سلطان محمود نے توجہ کی اور ۳۹۲ھ میں ریاست ’’دے ہند‘‘ کو فتح کیا جو قندھار کے علاقہ میں راجہ جے پال کے ماتحت راجپوتوں کی ایک مشہور ریاست تھی۔‘‘
آگے چل کر لکھتا ہے۔:
۔۔۔ملتان کی سرحد سے متصل مقام بھاٹیہ میں ایک مضبوط قلعہ تھا۔ اگرچہ یہ ’’لاہور‘‘ کے راجہ کے تابع تھا مگر اس کا حاکم بجے راؤ ’’لاہور‘‘ کے راجہ کی پروا نہیں کرتا تھا اور اپنے کو خود مختار سمجھتا تھا۔ انہی دنوں اپنی طاقت کے نشہ میں غزنہ کے حاکم کے ساتھ کسی سرحدی معاملہ میں بدعنوانی سے پیش آیا سلطان محمود کو جب خبر ہوئی و ہ۳۹۵ھ میں ایک جرار لشکر لے کر ملتان کی سرحد پر مقام بھاٹیہ جا پہنچا۔ بجے راؤ نے اپنی شکست سے دل گشتہ ہو کر خود کشی کرلی قلعہ فتح ہوگیا اورمحمود مال غنیمت لے کر غزنہ واپس آیا۔ چونکہ یہ جنگ ملتان کی سرحد پر ہوئی تھی اس لئے سلطان محمود کو یہ خیال تھا کہ ملتان کی ریاست اس معاملہ میں امداد دے گی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ نوجوان داؤد نے اپنی ناتجربہ کاری سے اس کی مدد نہ کی جس سے محمود ناراض ہوگیا۔ محمود اس وقت تو کچھ نہ بولا لیکن غزنہ پہنچ کر فوجی تیاری میں مشغول ہوگیا۔ ۳۹۶ھ میں ایک تازہ دم فوج لے کر ملتان پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوا مگر اسی کے ساتھ وہ خوب جانتا تھا کہ اگر میرے اس حملہ کی خبر داؤد کو ہوگئی تو وہ اپنے بچاؤ کی فوراً کوئی تدبیر ضرور کرے گا۔ اس لئے درہ بولان کے قریبی راستہ کو چھوڑ کر درہ خیبر کی طرف سے دریائے سندھ پار اتر کرملتان پر حملہ کرنا چاہا۔ لاہور کے تخت پر اس وقت جے پال کا لڑکا انندپال تھا اوریہ علاقہ اسی کے ماتحت تھا۔ محمود نے اس سے کہا کہ مجھے راستہ دے دو کہ میں آسانی کے ساتھ ملتان چلا جاؤں۔ انند پال راضی ہی نہیں ہوا بلکہ جنگ کے لیے بھی تیار ہوگیا۔‘‘
اس کے بعد’’حدود العالم من المشرق الی المغرب‘‘ ۳۷۲ھ کی ایک تصنیف کے حوالے سے ان مقامات پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ ان معلومات کو بھی ہم یہاں ترتیب کے ساتھ جمع کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔
۱۔ دیہند
دیہند بڑا شہر ہے یہاں کا حاکم راجہ جے پال ہے اور خود جے پال راجہ قنوج کے ماتحت ہے۔ یہاں مسلمان تھوڑے رہتے ہیں اور ہندوستان کے جہاز زیادہ تر اسی جگہ ٹھیرتے ہیں، مشک، موتی، اور قیمتی کپڑوں کی تجارت ہوتی ہے۔
(۲) لمغان
دریا کے کنارے بیچ راہ جو غزنہ کی طرف جاتی ہے میں ایک شہر ہے جو ہندوستان کی سرحد پر واقع ہے یہ تجارت کی منڈی ہے یہاں بھی مندر متعدد ہیں۔
(۳) دینور:
لمغان کے برابر ایک شہر دریا کے کنارے واقع ہے۔ تجارتی منڈی بھی ہے۔ لوگ خراسان سے آتے ہیں مندر بھی بہت ہیں اور ان دونوں شہروں میں بہت سے مسلمان تاجر مقیم ہیں۔ خوش حال اور آباد شہر ہیں۔
(واضح ہوکہ تاریخ فرشتہ نے اس شہرکا نام دیبور اورالبیرونی نے دنبور رکھا ہے اوریہاں دینور درج ہے یہ سب نام ایک ہی مقام کے لیے ہیں)
۴۔ سندھ
سندھ کے متعلق مصنف کا خیال ہے کہ وہ دریائے سندھ کے پار کے (مغربی) علاقہ کا نام ہے۔ سندھ کا حدود اربعہ اس طرح تحریر کیا ہے۔
’’اس ملک کے مشرق میں دریائے سندھ اور جنوب میں دریائے اعظم(بحر عرب) مغرب میں کرمان اور شمال میں وہ بیابان ہے۔ جو خراسان سے متصل ہے۔ یہ گرم ملک ہے جس میں بیابان زیادہ اور پہاڑ کم ہیں۔ یہاں کے باشندے گندمی رنگ کے ہیں اور تیز دوڑنے والے ۔ چمڑہ، جوتے، خرما، اورم صری کی برآمد خوب ہوتی ہے۔
لاہور کی وجہ شہرت
برصغیر کی تاریخ میں لاہور (پنجاب) کو آج جو شہرت حاصل ہے اس سے اس کے دور گمنامی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کی شہرت کی بنیاد کی پہلی اینٹ قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے رکھی گئی۔ شہاب الدین محمد غوری نے بتیس سال اور چند مہینے حکومت کرنے کے بعد وفات پائی تو اس کا بھتیجا محمود غور کا بادشاہ ہوا۔ محمود قطب الدین کے حسن انتظام سے بہت خوش تھا اور اسے اس کی اعلیٰ صلاحیتوں پر بڑا اعتماد تھا۔ چنانچہ اس نے ہندوستان کی حکومت اسے سونپ دینے کا فیصلہ کرلیا تاکہ وہ آزادانہ طور پر حکومت چلا سکے۔ محمود نے فیروزکوہ سے قطب الدین کے نام ہندوستان کی بادشاہت کاپروانہ بھیجے جانے کا حکم دیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ محمود کا پروانہ اس تک پہنچے کسی نے اسے حکم کے اجراء کی خوشخبری سنائی اور مبارک باد دی ۔قطب الدین کو یہ معلوم ہوا تو فوراً لاہور(گندھارا) کے لئے روانہ ہوگیا تاکہ بادشاہ کے فرمان کا استقبال کرے لیکن وہ ابھی مندکوہور(پنجاب کے موجودہ لاہور) تک پہنچا تھا کہ قاصد سے ملاقات ہوئی۔ چنانچہ ۱۸ ذیقعدہ ۶۰۲ ھ مطابق ۶۲ جون ۱۲۰۶ بروز منگل لاہور(گندھارا) کے بجائے لاہور (پنجاب) میں تاجپوشی کی رسم ادا کی گئی اور قطب الدین ایبک ہندوستان کا فرمانروا بن گیا۔
تاریخ فخر الدین مبارک شاہ کے مطابق قطب الدین ۱۱ ذیقعدہ کو نواح لاہور میں پہنچ تھا۔ ۱۷ کولاہور شہر میں داخل ہوا اور اس سے اگلے روز رسم تاجپوشی ادا ہوئی۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔