فیصلہ سازی کا فقدان
ہمارے ملک کے ساتھ پتا نہیں کیا مسئلہ ہے‘ پتا نہیں یہ کیا فسوں ہے‘ کیا معمہ ہے کہ ایک ایشو ابھی پوری طرح حل نہیں ہوتا کہ ایک نیا بحران سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔ ایک بھنور سے ابھی پوری طرح نکلنے نہیں پاتے کہ ایک نیا گرداب پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے‘ وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
تو یہی معاملہ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ہے‘ بلکہ ملک کا کیا قصور ہے؟ ملک تو ہمارا بہت خوبصورت ہے۔ بہت زرخیز بہت مردم خیز ہے۔ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال‘ ہر طرح کی نعمتوں سے بھرپور ہے۔ مسئلہ تو حکومتوں اور حکمرانوں کے ساتھ ہے‘ جو ایک تو مناسب وقت پر فیصلے نہیں کرتے اور دوسرے‘ کرتے بھی ہیں تو ٹھیک فیصلے نہیں کرتے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ پچھتر چھہتر برسوں میں برسر اقتدار رہنے والی حکومتیں اور اختیارات کا لطف اٹھانے والے حکمران اگر اس مٹی‘ اور اس کے عوام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے تو یقیناً اچھے فیصلے کرتے‘ دور رس اور بارآور۔ ایسے فیصلے جن کے میٹھے ثمر سے آج پوری قوم مستفید ہو رہی ہوتی لیکن یہاں تو معاملات چلتے رہے باریوں کے‘ اور ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسیوں کے۔ کیا یہ بات خوفزدہ کر دینے والی نہیں ہے کہ آزادی کی آٹھویں دہائی مکمل ہونے والی ہے‘ لیکن معاشی اور اقتصادی لحاظ سے ہم آج بھی اسی دو راہے پر کھڑے ہیں‘ جہاں 1947ء میں آزادی کے وقت تھے۔ تب ہم مالی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لیے اِدھر اُدھر سہارے تلاش کر رہے تھے‘ اور اب پون صدی کے بعد بھی ہم دیوالیہ ہو جانے کے خوف اور خطرات سے نبرد آزما ہیں، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے آزادی کی یہ پون صدی ضائع کر دی؟ کیا ہم اس سارے عرصے میں کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے؟ اپنے کسی بھی خواب کو متشکل نہیں کر سکے‘ اس کی تعبیر تلاش نہیں کر سکے؟ یہ آج کے دور کے سب سے بڑے سوال ہیں‘ جن کے جوابات میں ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقا‘ استحکام اور خوش حالی کا راز مضمر ہے۔
کیا اس زمینی حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک کو حقیقی ترقی دینے اور آگے بڑھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں؟ قرض لیے گئے اور ٹائم پاس کیا گیا۔ اپنا دورِ حکومت گزارا گیا‘ یہ کبھی نہیں سوچا گیا کہ مستقبل میں کیا ہو گا‘ تب ہمارا ملک کہاں کھڑا ہو گا اور اقوام عالم میں پاکستانی عوام کی پوزیشن اور ساکھ کیا ہو گی؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے جتنی ترقی کی اس سے زیادہ قرضے اپنے اوپر چڑھا لیے۔ ابھی چند روز قبل ہی سابق وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اس وقت ہر پاکستانی دو لاکھ 88 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ کیا یہ اعدادوشمار ہر ذی شعور کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ سابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ بجٹ خسارے کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ہیں۔ کیا سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان شاہد حفیظ کاردار کی اس بات کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ہم آج جس سٹیج پر پہنچ چکے ہیں‘ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں‘ ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے ہمیشہ زیادہ رہے ہیں‘ ہمارے اندرونی و بیرونی قرضے حکومتی آمدن سے 670 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام سے پہلے ہمیں آٹھ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اب یہ رقم کیسے اکٹھی کی جائے گی؟ کبھی بجلی کی قیمت بڑھا کر‘ کبھی پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں یا لیوی میں اضافہ کر کے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے 51 ارب 88 کروڑ روپے وصول کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرائی ہے جس کی سماعت 17 مئی کو ہو گی۔ اب یہ پیسہ کن کی جیبوں سے نکلے گا؟ ظاہر ہے عوام کی جیبوں سے۔ بجلی‘ گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے‘ اور یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی دہرایا جاتا ہے کہ ایسا ہر اضافہ مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم دیتا ہے‘ عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔
ہم آزادی کے اتنے عرصے بعد بھی حالات کے سمندر میں غوطے کیوں لگا رہے ہیں؟ اس کی وجہ میں نے اوپر بیان کر دی ہے کہ قیادت کی جانب سے کبھی مناسب وقت پر ٹھیک فیصلے نہیں کیے گئے۔ یہاں مثال گندم کے حالیہ بحران کی دوں گا‘ جس کی انکوائری ہو رہی ہے اور یہ پتا چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کن لوگوں کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا۔ ٹھیک ہے بحران کے پیدا ہونے کی وجوہ تلاش کی جانا چاہئیں تاکہ آئندہ ایسے بحرانوں سے بچا جا سکے‘ لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ سوچنا ہے کہ جو بحران پیدا ہو چکا ہے‘ اس سے کیسے نمٹا جائے؟
ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں ”ہمارے پاس بجلی نہیں ہوتی، پھر ہم بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور اتنی بجلی پیدا کرتے ہیں کہ اسے خرچ کرنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ ہمارے پاس گندم کی کمی ہوتی ہے۔ ہم باہر سے امپورٹ کرتے ہیں لیکن پھر اتنی گندم ہو جاتی ہے کہ ہمارے پاس ذخیرہ کرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں چینی کا بحران ہوتا ہے مگر پھر چینی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہمیں ایکسپورٹ کرنا پڑ جاتی ہے۔ ہم سولر پر جانے کے لیے سبسڈی دیتے ہیں۔ قوم کو ترغیب دیتے نہیں تھکتے لیکن پھر ہم ایک دم ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سولرائزیشن اتنی ہو رہی ہے تو پہلے سے موجود بجلی کا کیا بنے گا؟“۔ ایمان داری سے بتائیے گا‘ معاملہ کچھ ایسا ہی نہیں ہے۔ مسائل در مسائل اور بحران در بحران کا سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا‘ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان بحرانوں سے نمٹنا کیسے ہے؟ جو فیصلے کیے جاتے ہیں‘ ان میں دانش نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہ سطحی سوچ ہی ہے جس نے ہمیں ان نہج تک پہنچایا ہے۔ یہ سطحی سوچ انفرادی سطح پر ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اب ہمارے پاس اتنی گندم ہو چکی ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس گندم کا کیا کیا جائے جو کسانوں نے چار پانچ ماہ کی محنت اور قیمتی لوازمات استعمال کر کے اب اگائی ہے۔