ہاؤسنگ، کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر بحران کے حل کی عملی تجاویز!
چھت ہر فرد کی ضرورت ہے،رئیل اسٹیٹ سیکٹر کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے،دنیا بھر میں درجنوں ایسے ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ذریعے اپنی معیشت کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگایاہے۔ قیام پاکستان سے اب تک77 سال گزرنے کے باوجود رئیل اسٹیٹ،ہاؤسنگ،کنسٹرکشن کے کاروبار استحکام نہیں پا سکے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ایسا کاروبار ہے، جس سے چار درجن صنعتیں جڑی ہوئی ہیں اس کی مثال اگر دی جائے تو کوئی فرد امیر ہو یا غریب وہ اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے۔وہ دو مرلے کا ہو یا ایک کنال کا، اس کی طرف سے زمین کے حصول کے ساتھ ہی بنیاد رکھنے پر درجنوں افراد کو روزگار مل جاتا ہے۔ اس کی تعمیر جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے مختلف شعبے شامل ہوتے جاتے ہیں زمین کے بعد اینٹوں اور ریت، سیمنٹ، بجری، سریا، پھر فنشنگ اور دروازے لگنے تک کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے اگر ایک پراپرٹی کے کاروبار سے شروع ہونے والے کام میں ہاؤسنگ اور کنسٹرکشن خودبخود ملوث ہوتے جاتے ہیں ہمارے وطن عزیز کی بدقسمتی ہے77سال میں جب بھی جمہوریت آئی ہے رئیل اسٹیٹ کا اچھا بھلا چلتا ہوا کام متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔تازہ ترین سروے میں بھی انکشاف ہوا ہے حکومتی ریونیو میں سب سے زیادہ کردار رئیل اسٹیٹ، کنسٹرکشن، ہاؤسنگ کا ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور نگران حکومت کے 14ماہ اور اب میاں شہباز شریف کی حکومت میں جو درگت رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بنائی گی ہے اس کی وجہ سے کنسٹرکشن کا کاروبار بُری طرح متاثر ہو رہا ہے،اپنا گھر اور چھت کا حصول خواب بنتا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا پیکیج منظور ہونے کے بعد ان کی تازہ ترین شرائط نے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کی جان نکال دی ہے،رہی سہی کسر فیٹف نے پوری کر دی ہے۔ معاشی ڈسپلن قائم کرتے کرتے آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر کا جنازہ نکال دیا ہے اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کا رجحان دم توڑ چکا ہے۔جنرل مشرف مرحوم کے دور میں پاکستانی قوم کو لیونگ سٹینڈرڈ ملا، تاریخ کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری پاکستان میں آئی،لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں نے اپنا گھر بنایا، آئی ایم ایف کے نئے پیکیج اور نئی شرائط نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،خوف کی فضاء ہے، ایف بی آر کا جال پھن پھیلائے ہوئے ہیں، سرمایہ کار دبک کر گھروں میں بیٹھ گیا ہے۔پاکستان میں سرمایہ آنے کی بجائے باہر جا رہا ہے۔ کنسٹرکشن،ہاؤسنگ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ لاکھوں خاندان مشکلات کا شکار ہیں۔ہاؤسنگ سیکٹر میں بلڈنگ میٹریل بے تحاشا مہنگا ہونے کی وجہ سے درمیان میں پڑا ہے، 20لاکھ کے بجٹ سے شروع ہونے والے دومرلے کے گھر کا تخمینہ50 لاکھ تک بڑھ گیا ہے۔ پراپرٹی کے ہزاروں دفاتر بند ہو گئے ہیں۔ڈی ایچ اے جس کو محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھا جاتا تھا وہاں بھی ایک کنال کے پلاٹس کی قیمتوں میں ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ تک کمی آ گئی ہے۔ ڈی ایچ اے ملتان، بہاولپور، پشاور میں انویسٹر کا دھڑن تختہ ہو گیا ہے۔ ڈی ایچ اے کوئٹہ میں ایک کنال کی فائلز 25 لاکھ سے کم میں دستیاب ہے، ڈی ایچ اے لاہور کراچی میں جہاں سو سو ٹرانسفر روزانہ ہوتی تھی ایک ایک یا دو ٹرانسفر مشکل سے ہو رہی ہیں۔ یہی حال ایل ڈی اے، ایف ڈی اے اور سی ڈی اے کا ہے۔ پرائیویٹ ہاؤسنگ سکیم اس سے بھی زیادہ ابتری کا شکار ہیں افسوسناک پہلو یہ ہے اہم ترین شعبے حکومتی ترجیح نہیں ہیں۔ تمام محکمے انڈہ کھانے کی بجائے مرغی حلال کرنے کے در پے ہیں،میری نظر سے اسلام آباد کے ایک بلڈر احسن ملک کی اپیل اور تجاویز برائے ہاؤسنگ کنسٹرکشن، رئیل اسٹیٹ بنام وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزیر اقتصادی امور، وزیر مملکت،چیئرمین ایف بی آر کے نام گذارشات جس میں انہوں نے زمینی حقائق حکمرانوں کو بتانے کی کوشش کی ہے۔
احسن ملک صاحب کا کہنا ہے حکومتی دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کی منظوری کے بعد روپے کی قدر مستحکم ہو رہی ہے۔معاشی اشاریے بھی مثبت ہیں،مہنگائی میں کمی آ رہی ہے،زمینی حقائق اور عوامی تاثر بتاتا ہے معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا،مہنگائی میں کمی خبروں تک محدود ہے، گورننس نظر نہیں آ رہی۔احسن ملک صاحب نے حکمرانوں سے درخواست کی ہے مقامی صنعتوں کو چلانے اور معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لئے ایک سپیشل وزیراعظم ہاؤسنگ پیکیج کی ضرورت ہے ان کا کہنا ہے اس خصوصی پیکیج سے ہاؤسنگ سیکٹر سے وابستہ48 سے زائد صنعتوں کو نہ صرف چلایا جا سکتا ہے، بلکہ ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے،لاکھوں افراد کو روزگار بھی مل سکتا ہے اس کے لئے کم لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا فارمولا تبدیل کر کے زیادہ لوگوں سے کم ٹیکس وصول کر کے زیادہ ریونیو حاصل کرنے کا فارمولا متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ احسن ملک نے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے مخاطب ہو کر کہا ہے کنسٹرکشن زمین پرہوتی ہے ہوا میں نہیں، جب تک ہم اپنی ٹیکس پالیسی ری وزٹ نہیں کریں گے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ممکن نہیں ہے۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا ہے اس وقت ایک ٹن سٹیل(سریا) دو لاکھ35ہزار روپے میں 50 ہزار یعنی21فیصد ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں۔ سیمنٹ کے 50 کلو کے ایک بیگ میں 1420روپے قیمت پر 592 روپے، یعنی42فیصد ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے یہی سیمنٹ کا بیگ 650 روپے میں ایکسپورٹ کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے7-E، میٹریل ڈیوٹی کیپٹل ویلیو جیسے ٹیکسوں نے ہاؤسنگ اور کنسٹرکشن سیکٹر کو بحان سے دوچار کیا ہے،تینوں ٹیکس عدالت میں چیلنج ہو چکے ہیں۔ایف بی آر ٹیبل پر آنے کے لئے تیار نہیں ہے، تینوں ٹیکسز کی موجودگی میں کنسٹرکشن،ہاؤسنگ،رئیل اسٹیٹ سیکٹر پروان نہیں چڑھ سکتے۔آئی ایم ا یف کی طرف سے ڈو مور کی مد میں ایف بی آر نے غیر منقولہ جائیدادوں کے ٹیبلز ریٹس میں 75 سے80فیصد اضافہ کر دیا ہے۔اس سے رئیل اسٹیٹ اور بلڈرز کا کاروبار جو تھوڑا بہت چل رہا تھا اُس کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا ہے، ڈی سی ریٹس میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ وزیراعظم، وزیر خزانہ اگر فوری اوورسیز پاکستانیوں کے لئے خصوصی مراعاتی پیکیج نہیں لائے تو لاکھوں خاندان بیروز گار ہو جائیں گے۔
٭٭٭٭٭