کسانوں سے کھلواڑ کب تک؟
وطن ِ عزیز میں ہمارے لئے اجناس کا بندوبست کرنے والے کسان کے ساتھ کبھی گندم، کبھی کپاس، کبھی گنا، کبھی چینی اور آٹا کے ذریعے کھلواڑ سالہا سال سے جاری استحصال آخر کب تک جاری رہے گا؟ گزشتہ 26 سال سے بطور صحافتی طالب علم پڑھتا اور سنتا آ رہا ہوں پاکستان ایسا زرعی ملک ہے،جس کی سرزمین پوری دنیا میں انفرادیت کی حامل ہے جب چاہے گندم، چاول، کپاس، چینی میں نہ صرف خود کفالت حاصل کر سکتا ہے بلکہ ضرورت سے زائد اجناس برآمد کر کے زرِمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔
افسوس میری زندگی میں یہ باتیں کتابوں اور کالموں سے آگے نہ بڑھ سکیں، ان دِنوں جب ملک بھر کے کسان اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر سراپا احتجاج ہیں۔ کسان بورڈ گزشتہ ایک ہفتے سے ملک بھر کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے باہر ٹوکن احتجاج ریکارڈ کرا رہا ہے اور اس کا احتجاج آگے بڑھانے اور ملک گیر کرنے کا پروگرام اس بات سے مشروط ہے۔ پنجاب حکومت سمیت دیگر صوبے اور مرکز کسانوں سے اپنے اعلان کردہ نرخوں کے مطابق گندم خریدیں۔ کسان بورڈ اور اس کے نمائندے اپنی احتجاجی مہم کے اگلے مرحلے کا اعلان آج کرنے جا رہے ہیں، جبکہ ملک بھر کے کسانوں کے نمائندہ کسان اتحاد کے صدر خالد محمود نے آج ملتان سے کسان تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان کا احتجاجی پروگرام انفرادیت کا حامل ہے، کیونکہ انہوں نے کسانوں کو فیملی سمیت اس احتجاجی پروگرام کا حصہ بنانے کے ساتھ کسانوں کو اپنے ہر طرح کے جانوروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں سمیت شرکت کی دعوت دے رکھی ہے۔یہ احتجاج کسانوں کو ریلیف دِلا سکے گا،گورنمنٹ نے جب گندم کی قیمت4300روپے مقرر کی، پھر 4000روپے تک آ گئے اور نگرانوں نے3900 روپے مقرر کی۔ خریداری قیمت کے ردوبدل کا بھی کسان نے اثر نہ لیا، بلکہ اس بات پر خوش نظر آئے۔ چلو حکومت ہماری ساری گندم خریدے گی انہی عزائم کے ساتھ وہ اپنے اور اپنے بچوں کی بہتری کے منصوبے تشکیل دیتا رہا۔یہ سارا کچھ میاں شہباز شریف کی16ماہ کی حکومت کے جاتے دِنوں میں ہوا اور رہی سہی کسر نگرانوں کے اس عزم کے ساتھ سپرد کر دی گئی ہم خود کفالت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔نگران حکومت جس کی ذمہ داری الیکشن کرانے تک محدود ہوتی ہے اس دفعہ نگرانوں کو زیادہ بااختیار بنانے کا اعلان کرتے ہوئے16ماہ کی حکومت نے باقاعدہ قانون سازی کی اور کہا ملک کی سلامتی اور ملکی معیشت کی مضبوطی کے لئے نگران بڑے بڑے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں گے۔ متوقع صدر پاکستان مسلم لیگ(ن) میاں نواز شریف کی طرف سے وزیراعظم میاں شہباز شریف سمیت دیگر ذمہ داران کو طلب کر کے گندم سکینڈل کی وضاحت مانگنا، بلاتفریق تحقیقات کا حکم دینا اخلاقی لحاظ سے درست عمل ہے،مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ اناج کی خریداری کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم نے سارا ملبہ اِدھر اُدھر ڈالتے ہوئے فوری تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔ سوشل میڈیا نے نگران وزیر، موجودہ وزیراعظم، سیکرٹری فوڈ اور دیگر افراد کو خود ہی ذمہ دار قرار دے کر قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا تھا اس حوالے سے کیا کہا جائے۔ جی آئی ٹی، نیب، ایف آئی اے، کون تحقیقات کرے گا، کس کے خلاف تحقیقات ہوں گی یہ وہ پنڈورا بکس ہے جو گزشتہ منگل کو سابق نگران وزیراعظم نے نگران وزیر داخلہ اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کر کے کھول دیا ہے ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات ذو معنی بھی ہیں اور قابل ِ تشویش بھی۔موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، انوار الحق کاکڑ، محسن نقوی، مریم بی بی سب ہی گندم سکینڈل کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پُرعزم ہیں۔بات آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟پاک فوج کے اداروں کی خاموشی،عدلیہ کی خاموشی، چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے حلقوں کی طرف سے خاموشی؟ عوام جائیں تو کہاں جائیں؟ کسان احتجاج کریں تو لاٹھیاں، آنسو گیس، گرفتاریاں ان کی منتظر ہیں ہمارے کسانوں کا استحصال کب تک؟
خدارا جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے، کسان جس طرح پس رہا ہے کنوئیں کے کنارے کھڑا ہے، خاندانوں کے خاندان بڑی مشکلات میں ہیں وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف نوٹس لیں۔ کسانوں کی داد رسی کریں ان کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی تو کسان آئندہ گندم کاشت نہیں کرے گا اس کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑے گا ایسی صورتحال سے پہلے کچھ کیا جائے ورنہ کسانوں کا بچوں اور جانوروں کے ساتھ، ٹریکٹر ٹرالیوں کے ساتھ سڑکوں پر آج سے آنا، دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔کسان ہمارا دشمن نہیں پاکستانی قوم کا محسن ہے اس کی سرپرستی ملکی معیشت کی مضبوطی کا باعث بن سکتی ہے،انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے کسان کی فصل کی خریداری کو یقینی بنایا جا ئے۔ نت نئے گندم آٹا،چینی کے سکینڈل کی مستقل روک تھام کے لئے سیسہ پلائی دیوار تعمیرکی جائے۔