سیاست،ملک اور عوام 

   سیاست،ملک اور عوام 
   سیاست،ملک اور عوام 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس وقت پورے ملک میں جو چیز سب سے زیادہ عروج پر ہے وہ سیاست ہے۔ احتجاج ہو رہے ہیں اور احتجاج روکنے کی کوششیں بھی، لیکن یہ کوششیں کچھ اس طرح سے جاری ہیں کہ احتجاج کرنے والوں کو خود بخود پروجیکشن مل رہی ہے۔ انہیں اپنے احتجاج کی ایڈورٹائزمنٹ کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑ رہا، ٹھیک ہے جناب جہاں جمہوری نظام حکومت ہو وہاں سیاست چلتی ہی ہے، اور جہاں سیاست ہو وہاں احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے اقدامات بھی ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن اس سارے عمل میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے وہ ملکی معیشت ہے۔ آج اس انٹرنیٹ والے دور میں سبھی اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ کسی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار وہاں قائم سیاسی استحکام پر ہوتا ہے اور یہ ایک دوسرے کو براہ راست متاثر کرتے ہیں، یعنی اگر سیاسی استحکام نہ ہو تو معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے جیسا کہ اس وقت ملک میں نظر آ رہا ہے اور معاشی استحکام نہ ہو تو سیاست کا بھی کوئی مزا نہیں آتا،بس وقت گزاری والا معاملہ ہی ہوتا ہے۔  ویسے تو معیشت بڑا وسیع موضوع  ہے اور اس کے احاطے کے لیے اس طرح کے کئی کالم درکار ہوں گے لیکن میں جس مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں وہ زرعی سیکٹر ہے،خصوصاً گندم کی کاشت کا معاملہ۔ اکتوبر کا وسط آ چکا ہے اور گرمی کا زور ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں ہے اور گرمی کی یہ شدت فصلوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ گندم کی کاشت کا موزوں وقت یکم تا 20 نومبر ہے،اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد کاشت کی گئی فصل کی پیداوار میں ہر روز ایک فیصد یعنی 15 تا 20 کلوگرام فی ایکڑ کے حساب سے کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

 اس حساب سے دیکھا جائے تو کسانوں کو اب تک گندم کی کاشت کی تیاریوں میں مصروف ہو جانا چاہیے تھا،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ امسال اپریل مئی میں کسان سے گندم سرکاری طور پر نہیں خریدی گئی تھی جس کی وجہ سے کاشت کاروں کو خاصا مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا اور اب وہ خاصے مایوس نظر آتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی پاکستان کسان اتحاد نے واضح کیا تھا کہ ملکی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے، لیکن اگلے سال گندم کاشت نہیں ہو گی،حکومت بچانے اور اقتدار میں آنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، زراعت کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا، ہمارا موسم تبدیل ہوا ہے، جس سے فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح خبردار کیے جانے کے بعد ہنگامی طور پر ملک میں کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی، اور گندم کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات کیے جاتے،لیکن ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بے وقت فیصلے کام اور اقدامات کرنے کا بڑا رواج ہے۔

 ہماری سرکار اور انتظامی مشینری اکثر اس وقت حرکت میں آتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے یا گزرنے والا ہوتا ہے جبکہ اچھی منصوبہ بندی وہی ہوتی ہے جو وقت پر کی جائے۔ اکثر مشاہدے میں آتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اجناس کی امدادی قیمت کا اعلان اس وقت کیا جاتا ہے جب فصل کاشت کی جا چکی ہوتی ہے حالانکہ یہ اعلان اس وقت ہونا چاہیے جب فصل ابھی کاشت ہونا ہوتی ہے تاکہ کسانوں کو معلوم ہو کہ وہ اگر یہ فصل کاشت کریں گے تو فصل تیار ہونے پر کس بھاؤ وہ اس فصل کو فروخت کر سکیں گے اور انہیں اپنی محنت کا کتنا صلہ ملے گا،لیکن صورت حال یہ ہے کہ گندم کی کاشت کا وقت ہوا چاہتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک اس کی سرکاری قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں آئندہ برس اپریل، مئی میں ہمارے ملک میں گندم کی پیداوار کی کیا صورت حال ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں فیصلے کچھ اس طرح کیے جاتے ہیں کہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز کی ملک میں قلت ہی رہتی ہے۔ کبھی ملک میں طلب ہونے کے باوجود گندم برآمد کر دی جاتی ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ یہ تو ضرورت سے زیادہ برآمد ہو گئی، اور پھر وہی گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ کبھی چینی زیادہ برآمد ہو جاتی ہے اور ہمیں بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہاں پر بھی اس کی بہت ضرورت تھی اور پھر وہی چینی بیرون ملک سے بھاری زر مبادلہ خرچ کر کے درآمد کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس سارے معاملے کو گڈ گورننس تو کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ ہمارا ملک جس نہج تک پہنچ چکا ہے اس میں ضرورت ہی صرف اور صرف گڈ گورننس کی ہے۔اس ساری بحث اور بات چیت کا مطلب،مقصد حکمرانوں سے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جناب سیاست ضرور کیجیے لیکن اپنے معاملات کے ساتھ ساتھ گڈ گورننس کے تقاضوں کو بھی پورا کیجیے۔ ضروری نہیں کہ ہر فیصلہ غلط اور ضروری نہیں کہ ہر فیصلے کے بعد پچھتانا ہی پڑے،کچھ فیصلے ایسے بھی ہونے چاہئیں جو حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوں اور جن کے مثبت اثرات ظاہر کرتے ہوں بلکہ ثابت کرتے ہوں کہ یہ فیصلے نہایت سوچ سمجھ کر حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر اور موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کے گئے ہیں۔ سیاست ضرور کیجیے لیکن کچھ خیال اس ملک کا بھی اور اس ملک کے عوام کا بھی رکھیں۔

مزید :

رائے -کالم -