تلاشی دیجئے: کہیں آپ مجرم نہیں ہیں !!
عملی زندگی کی بنیاد حقائق پر رکھی گئی ہے ۔ خواب دیکھنا اچھی بات ہے لیکن ان کی تعبیر عملی اقدامات کی ہی مرہون منت ہے ۔ ہما کا فقیر کے سر پر بیٹھ کر اسے بادشاہ بنانے کا وقت کب کا لد چکا ہے۔قسمت کی دیوی انہی پر مہربان ہوتی ہے جو اسے اپنی جانب مائل کرنے کا ہنر جانتے ہوں اور کیوپڈ کا تیر کسی بدصورت کے لئے نہیں چلتا ۔ مشکلات کا مقابلہ کرنا کامیاب انسانوں کی دلیل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی ضروری ہے ۔ گھڑے پر بیٹھ کر دریا آج بھی پار ہو سکتا ہے لیکن اس کام کا بیڑاٹھانے والے کو یہ علم ہونا چاہئے کہ گھڑا بہاؤ کے مخالف سمت کبھی نہیں لیجاتا ۔ دنیا کی حقیقتیں تو یہی بتاتی ہیں البتہ خوابوں کی دنیاکسی اور سراب کی جانب مائل کر سکتی ہے ۔
پنجاب میں پولیس سروس کے حوالے سے حکمرانوں نے ماضی میں بھی بہت سے دعوی کئے ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی یہ کام اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہوا ہے۔ پنجاب میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر مسلسل تحقیق کرنے کی وجہ سے یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ماضی کی نسبت اب صورت حال بہت بہتر ہے اورکئی ایسے اہم اقدامات کئے گئے ہیں جن کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ تبدیلی کا سفر ایک دن یا ایک لمحہ میں طے نہیں ہوتا لہذا پہلی حکومتوں کی طرح یہ بھی کسی طور مناسب نہ ہو گا کہ ماضی کے اچھے اقدامات کو سیاست یا ذاتیات کی نذر کیا جائے ،البتہ دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کے اس سفر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مزید کیا فیصلے کئے جائیں ۔ یہ تو طے ہے کہ جو اچھا کام جس سیاست دان یا آفیسر کو نصیب ہو، تاریخ اس کا کریڈیٹ اسی کو دیتی ہے ۔ اچھے آفیسر اور اچھے سیاست دان ہر دور میں رہے ہیں اور انہیں بھرپور عوامی پذیرائی بھی ملی ہے۔ ہم تاریخ کے دامن سے حقائق چھین کر کسی اور کے نام نہیں کر سکتے البتہ یہ طے ہے بہتر سے بہتر کا سفر طے کرنے والوں کے نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں ۔
جہاں تک سوال پولیس کا ہے تو ماضی کی نسبت پنجاب پولیس نے تیزی سے کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے ۔ ہمارے تھانوں سے لے کر پٹرولنگ اور انویسٹی گیشن تک کا نظام بہت بہتر ہوا ہے لیکن تاحا ل پولیس سسٹم کی بہتری کی راہ میں حائل جو سب سے بڑا مسئلہ نظر آتا ہے وہ فنڈز اور افرادی قوت کی کمی ہے ۔ آبادی میں ہونے والے تیز تر اضافہ کے حساب سے نہ تو پولیس میں اتنی بھرتیاں ہو سکیں اور نہ ہی محکمہ پولیس کو اس کی ضروریات کے مطابق بجٹ مل سکا۔ یہ انتہائی اہم ایشو ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا لا اینڈ آرڈر کی صورت حال میں بہتری لانا صرف حکمرانوں یا محکمہ پولیس کی ہی ذمہ داری ہے ؟ کیا بحیثیت عوام ہم ہر ذمہ داری سے بالاتر ہیں ؟ اس سے بھی اہم مسئلہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر پولیس کو بہتر کرنے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر عوام پھر بھی اسی ڈی پی او کا ساتھ دیتے ہیں جو اپنی ماتحت فورس کو ایک با اثر شخص کے فون پر اس کی گاڑی اور اس کے محافظوں کے اسلحہ کا لائسنس چیک کرنے سے روک دیتا ہے ۔ اس وقت آئی جی پنجاب ڈاکٹرسید کلیم امام نے یہی بتایا تھا کہ انہوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی اور غلط بیانی پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا اور بعد میں یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ڈی پی او ڈسپلن اور چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کمانڈر کی اجازت کے بغیر وزیر اعلی ہاؤس چلے گئے تھے اور اس کے بعد جو ہوا اس سے پورے محکمہ کے وقار پر حرف آیا۔
سابق ڈی پی او پاکپتن کے معاملہ میں جو ابتدائی انکوائری رپورٹ سامنے آئی اس میں بھی یہ بات کی گئی ہے کہ ڈی پی او نے پولیس اہلکاروں کو رات کے وقت خاور مانیکا کی گاڑی کی تلاشی لینے سے روک دیا تھا حالانکہ ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں نے وہ گاڑی روکی ہی اس لئے تھی کہ اس میں اسلحہ بردار لوگ نظر آئے تھے ۔ خاور مانیکا عزت دار اور با اثر شہری سمجھے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس رویے کے ساتھ ہم پولیس اور دیگر محکمے ٹھیک کر پائیں گے ؟ سوال یہ ہے کہ اگر ان کے محافظوں کے پاس اس اسلحہ کا لائسنس تھا اور وہ کسی بھی غیر قانونی کام میں ملوث نہیں تھے تو پھر آدھی رات کو روکنے پر تلاشی دینے میں کیا امر مانع تھا ؟ اگر اسی طرح کسی جگہ اسلحہ برداروں کو دیکھ کر ان کی گاڑی کو شناخت کے بغیر جانے دیا جائے اور وہ لوگ خدانخواستہ کسی بڑے سانحہ کے مرتکب ہوں تو ہم ذمہ داری کس پر ڈالیں گے ؟ ہمیں اب ایسے مکالمہ کی ضرورت ہے جس میں واضح کیا جائے کہ تلاشی صرف مجرموں کی ہی نہیں لی جاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو تلاشی دینے سے کسی کی سبکی نہیں ہوتی ۔ معاشرے کے باعزت شہری ہی پولیس اور سکیورٹی اداروں کو اپنی شناخت کرواتے ہیں ، مجرم البتہ اس عمل سے گھبراتے ہیں۔کیا ایئرپورٹ پر یہی ایلیٹ کلاس اور معزز لوگ لائن میں لگ کر اپنی شناخت کروانے کے ساتھ ساتھ تلاشی نہیں دیتے اور ان کا سامان سکین نہیں کیا جاتا ؟
ہم جب تک پولیس اہلکاروں کو عزت نہیں دیں گے اور قانون کی پاسداری کو لازمی قرار نہیں دیں گے تب تک سسٹم بہتر نہیں ہو سکتا کیونکہ سسٹم چند لوگ یا اداروں کی وجہ سے نہیں بلکہ عوامی سوچ اور رویہ کی بدولت بہتر ہوتا ہے ۔ ہمیں تبدیلی کے لئے اس پہلو پر بھی توجہ دینی ہو گی ۔ ہمارے وزیر اعظم کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ ان کی ایک آواز پر عوام کی اکثریت لبیک کہتی ہے لہذا وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی عزت اور تلاشی سمیت شناخت کے دیگر مراحل کی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں ۔ میرے خیال میں اس کے لئے سیاست دانوں سے لے کر سول سوسائٹی تک ایک بھرپور آگہی کمپین کی ضرورت ہے جس میں واضح کیا جائے کہ تلاشی اور شناخت ہماری اپنی حفاظت کا ایک اہم عمل ہے جس میں توہین ، سبکی یا خوف کا عنصر صرف جرائم پیشہ افراد کے لئے ہے۔
۔۔
نوٹ۔ادارے کا بلاگرز کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔