یہ نجی ائیرلائنز والے کیا کرتے ہیں؟

یہ نجی ائیرلائنز والے کیا کرتے ہیں؟
Maz
کیپشن: Maz

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ دنوں لاہور سے دوبئی تک کے سفر کا اتفاق ہوا۔ یہاں سے دوبئی کے لئے بعض نجی ائیر لائن کمپنیاں بھی آپریٹ کرتی ہیں۔ صرف پی آئی اے تھی تو جب کبھی مسافروں کی سہولتوں کا ذکر آتا اور کوئی پریشانی بیان کی جاتی تو کہاجاتا کہ سرکاری ائیر لائن کی اجارہ داری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور مسافروں کی پرواہ نہیں کی جاتی کہ وہ اسی ائیر لائن سے سفر کرنے پر مجبور ہیں، شاید اسی لئے نجی ائیر لائنوں کو بھی اجازت دی گئی کہ سرکاری ادارے کے ساتھ ساتھ نجی کمپنیاں کام کریں گی تو مقابلے کی فضاءپیدا ہوگی اور مسافروں کو سہولتیں ملیں گی، میرا اپنا تعلق بھی کاروباری برادری سے ہے اور یہ سچ ہے کہ مارکیٹ میں مقابلہ ہو تو اس سے شہریوں کو فائدہ ہوتا ہے ،آج کل کے دور کے لئے موبائل فون سروس کی مثال دی جاسکتی ہے کہ ایک سے زیادہ نجی کمپنیوں کی وجہ سے صارفین زیادہ سہولتیں بھی حاصل کررہے ہیں فون بھی سستے ہوئے تو فون کالز کے نرخوں میں کمی ہوئی ہے، لیکن ائیر لائن کمپنیوں پر ایسا کوئی اثر نہیں پڑا۔ مسافروں کی شکایات ہیں جن کاازالہ نہیں ہورہا۔

کاروبار کی نوعیت کے اعتبار سے خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ، چین اور امریکہ تک کے سفر کا اتفاق ہوا۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ان ممالک کی ائیر لائنز مسافروں کی سہولت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتی ہیں، اور شکایت کی صورت میں ازالہ بھی کیا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک میں ”سینئرسٹی زن“ یعنی بزرگ حضرات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ان کے آرام کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ ائیر ہوسٹس یا ائیر لائن کے ملازم بزرگوں کا سامان خود اٹھا لیتے اور ان کو سہارا دے کر بورڈنگ میں سہولت دیتے ہیں اور پھر ہر ائیر لائن کمپنی نے وہیل چیئرز رکھی ہوئی ہیں تاکہ جو بزرگ زیادہ عمر کے ہیں ان کو یہ سہولت مہیا کی جاسکے، اس کے ساتھ ہی یہ وہیل چیئر ایسے افراد کے بھی کام آتی ہیں، جو کسی نہ کسی جسمانی عارضہ کے باعث چل نہیں پاتے۔ دنیا کے ہر ملک میں ائیر لائن والے یہ سہولت نہ صرف مفت فراہم کرتے ہیں، بلکہ ائیر لائن والوں کو بتادیا جائے توسٹیورڈیا ائیر ہوسٹس ایسے فرد کے لئے نہ صرف وہیل چیئر کا خود انتظام کرتی ہیں،بلکہ ایسے مسافر کو بٹھا کر وہیل چیئرمیں خود لے کر ہوائی جہاز تک جاتی ہیں۔

اب اصل بات کی طرف آتے ہیں جو یہ ہے کہ جب ہم دوبئی جارہے تھے تو ائیر پورٹ پر ایک بزرگ منتظر تھے کہ ان کو کوئی ایسی سہولت بہم پہنچا دی جائے کہ وہ کمزور تھے اور ازخود چل کر جہاز تک نہیں جاسکتے تھے، ان کے پاس ایک نجی ائیر لائن ائیر بلیو کا ٹکٹ تھا اور اس کی طرف سے بتادیا گیا ہوا تھا، یہ ٹکٹ ایسے فرد کے لئے ہے جو تعاون کے بغیر چل کر جہاز تک ازخود نہیں جاسکتے۔ متعلقہ ائیر لائنز کے عملے سے کہا گیا کہ ان کی مدد کریں تو جواب ملا آپ کو پہلے لکھوانا چاہئے تھا اور یہاں وہیل چیئر کے لئے آپ( مسافر) کو اضافی رقم دینا ہوگی جو ایک سو چالیس درہم ہے اور یہ بزرگ کرائے کے نام پر رقم دے کر گئے کہ خود نہیں جاسکتے تھے، چنانچہ ان کو کرائے کے عوض وہیل چیئر پر جہاز تک لے جایا گیا اور یہاں بھی ان کی وہیل چیئر ان کے ساتھ جانے والے نوجوان نے سنبھالی تھی، ائیر لائن والوں نے تعاون نہیں کیا۔
 یہ بہت عجیب وغریب بات ہے کہ جن کمپنیوں کے سپرد عوامی خدمت کی جاتی ہے اور اسی کے عوض وہ بھاری منافع کماتی ہیں۔ ان کو نہ تو اپنے کاروبار کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کا خوف، کہ بزرگوں کو سہولت پہنچانا تو خدمت کے زمرے میں آتا ہے جس کا حکم ہمارے نبی نے دیا ہوا ہے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور کسی کو خدا کا خوف نہیں، لوگوں کی مجبوریوں کو ٹھیک کرنے اور کروانے کی ضرورت ہے، لیکن یہاں معاملہ ہی الٹا ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی اور حکومت کے نگرانی کرنے والے ادارے کے کرتا دھرتا حضرات کو اس طرف توجہ دینا چاہئے ، اگر نجی شعبے کو اجازت دی گئی ہے توان سے مسافروں کی سہولتوں پر بھی عمل کرایا جائے، جب مجبوری وہیل چیئر جیسی سہولت مانگی جائے تو آسانی کی بجائے پریشانی ہوتی ہے۔