امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 2
گزشتہ دو برس کے دوران میں نویں بار پاکستان آیا تھا ۔ اس میں سے آدھا وقت میں نے پاکستان کے اہم شہر پشاور میں گزارا جو کہ افغانستان کی سرحد کے قریب ہے جبکہ باقی آدھا وقت صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رہا تھا جو کہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ ایک کروڑ آبادی کا حامل یہ شہر لاتعداد جامعات ، بازار ، مساجد ، تاریخی عمارتوں اور ریسٹورنٹس کی وجہ سے مشہور ہے ۔ لاہور اپنی قدیم روایات اور تایخ کی وجہ سے بھی انتہائی اہم شہر ہے ۔یہ شہر دہشت گردوں کا گڑھ بھی تھا اور دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن کی حیثیت بھی رکھتا تھا ۔ میرا کام یہاں موجود غیر ملکیوں کی حفاظت تھی اور یہی وجہ تھی کہ مجھے یہ کام پسند تھا ۔
مجھے غلط نہ سمجھیں لیکن اس وقت میں اور میری باقی ٹیم کے لوگ محض کھیل کے میدان کے ریفری نہیں تھے ۔ اگر کوئی ہمارا نوٹس نہیں لیتا تو اس کا مطلب تھا ہم ٹھیک کام کر رہے ہیں ۔ ایسے واقعات بہت کم تھے جو ناپسندیدگی کا باعث بنتے لیکن اس وقت ہمیں پوری قوت سے یہ بتانا پڑتا تھا کہ ہم وہاں موجود ہیں۔
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 1 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سکیورٹی کنٹریکٹر کے طور پر ہماری بنیادی ذمہ داری اہم لوگوں کی انہی سے حفاظت کرناتھی ۔ مجھے غلط مت سمجھیئے ۔بہت سے لوگ جن کی حفاظت میرے ذمہ تھی وہ بہت زیادہ ذہین نہیں تھے لیکن اپنے کام میں ماہر تھے ۔وہ متوقع خطرات کو بھانپنے کی صلاحیت سے عاری تھے اور وہ غلط موقع پر غلط جگہ پر گھومنے چلے جاتے تھے۔ وہ لوگ واشنگٹن ڈی سی کے دفاتر جیسے عمدہ ماحول کے عادی تھے لیکن انہیں ایسے ممالک میں جانا پڑتا تھا جہاں امریکا کی مخالفت انتہا پر تھی اور شدت پسند گروپ موجود تھے ۔ میری موجودگی اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ وہاں کوئی احمقانہ حرکت نہ کریں جس سے انہیں نقصان پہنچے اور بحفاظت واپس اپنے گھر لوٹ سکیں ۔ ایک کنٹریکٹر کی ڈیوٹی کتنی اہم ہوتی ہے اور اسے کتنے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں ۔کچھ عرصہ قبل میری ذمہ داری یو ایس ایڈ کے افسران کی حفاظت کرنا تھی جو افغانستان کے دیہی علاقوں میں سڑکیں اور چھوٹے مکانات تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ وہاں سروے کے لئے نکلنے سے پہلے میں نے اس گروپ کو خبردار کیا تھا کہ یہ ملک بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے لہذا ہر وقت محتاط رہیں ۔
میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ کوئی اِدھر اُدھر نہ ہو اور صرف اس کام پر توجہ رکھیں جو وہ کرنے آئے ہیں ۔ اس کے باوجود ایک خاتون کسی چیز کی تصویر کھینچ رہی تھی جب میں چلایا ’’ رکو ! مزید ایک قدم بھی مت چلنا ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا کہ میں نے اسے رکنے کا کیوں کہا ہے ۔ میں نے اس کی توجہ سرخ نشان والے پتھر کی طرف دلائی ۔ تب اسے معلوم ہوا کہ وہ خطرناک بارودی سرنگوں کے درمیان کھڑی تھی جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی تھیں ۔۔
بارودی سرنگ کے درمیان پھنسی اس خاتون کوبچانے کے لئے اس وقت میرے پاس فوری طور پرکوئی بہتر طریقہ نہیں تھا ۔ میں اس بارودی سرنگ کے قریب گیا اور یو ایس ایڈ کی اس خاتون کو انہی قدموں پر واپس لانے کے لئے اس کی راہنمائی کی اور بالآخراسے وہاں سے نکال لانے میں کامیاب ہو گیا ۔ ایک غلط قدم ہمیں موت سے ہمکنار کر سکتا تھا لیکن میرے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔بارودی سرنگوں کے درمیان محفوظ راستہ تلاش کرنا بھی میری ڈیوٹی کا حصہ تھا ۔ ایک سکیورٹی کنٹریکٹر کے طور پر آپ کو صورت حال کے مطابق کوئی بھی قدم اٹھانا پڑ سکتا ہے ، اس وقت مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جو کرنا پڑے وہ آپ کرتے ہیں ۔ یہاں کسی کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے کچھ بھی ہو سکتا ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ بھی مارے جائیں لہذآ پ کو ہر لمحہ مستعد رہنا پڑتا ہے ۔ میرے خیال میں یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ اپنے ڈیوٹی کے دوران مجھے کبھی ایسی صورت حال سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔ میں نے متعدد بار ایسے حالات کا سامنا کیا ۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے کہا گہا کہ میں ڈک چینی ( امریکی نائب صدر ) کے وفد کی گاڑی کے آگے آگے حفاظتی گائیڈ کے طور پر جاؤں۔ میری ذمہ داری تھی کہ ان کے وفد کے راستہ میں مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کو ان سے دور رکھوں تاکہ وہ بحفاظت اپنی منزل تک پہنچ جائیں ۔اس روز بھی ہمیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ۔(جاری ہے)
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں