بچوں کا اغواء اور گداگری کا دھندا

  بچوں کا اغواء اور گداگری کا دھندا
  بچوں کا اغواء اور گداگری کا دھندا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بچے کسے اچھے نہیں لگتے۔ انہی سے ہمارے گھروں کی رونق اور زندگی کا تسلسل ہے، لیکن ملک بھر میں اغواء کی وارداتوں کی وجہ سے یہ رونق ماند پڑ رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق لاہور سمیت پنجاب بھر میں کم عمر بچوں کے اغواء کی وارداتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ رواں سال جولائی تک لاہور میں بچوں کے اغوا کے 366 مقدمات درج ہوئے، جبکہ صوبے بھر میں بچوں کے اغواء کی1496وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔پولیس اغواء ہونے والے بچوں میں 20 فیصد کو بازیاب کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ میں نے امسال جولائی میں سامنے آنے والی ایک میڈیا رپورٹ پیش کی ہے۔اس حوالے سے اب تک اعداد و شمار کہاں تک پہنچ چکے ہوں گے،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے اغواء کی وارداتیں محض لاہور یا پنجاب میں نہیں،بلکہ پورے پاکستان میں ہو رہی ہیں اور ایسی وارداتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 

ذرا بڑے بچے اغواء کاروں کے لئے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ وہ انہیں رنگ برنگے کھلونوں کا لالچ دے کر، انوکھی ڈیوائسزدکھا کر، چاکلیٹس اور ٹافیوں کا جھانسہ دے کر یا انہیں ورغلا کر اغواء کر لیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ہسپتالوں سے چوری یا اغواء کر لیا جاتا ہے۔ اغواء ایک مجرمانہ فعل ہے جو ترقی پذیر ممالک میں زیادہ پنپ رہا ہے، کیونکہ غربت، بیروزگاری اور وسائل کی کمی جیسے عوامل لوگوں کو ایسے قبیح افعال پر اکساتے ہیں۔ اس دھندے کے پھلنے پھولنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بچوں کے اغواء کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بچوں کا اغواء بدقسمتی سے اب ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اغواء کردہ بچوں کے جسمانی اعضاء کاٹ کر، انہیں مفلوج بنا کر بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نومولود بچوں کو بھی اسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

سڑکوں اور چوراہوں پر سے گزرتے ہوئے سب اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کچھ خواتین بچوں کو گود میں اٹھائے بھی مانگ رہی ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی ہتھکنڈا ہوتا ہے‘ ایموشنل بلیک میلنگ (Emotional Blackmailing) کا ایک طریقہ کہ اگر کسی نے ان خواتین کو بھیک نہیں دینی تو ان بچوں پر ترس کھا کے ہی کچھ نہ کچھ پیسے ان کے حوالے  کر دیں۔ ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور سگنل گرین ہونے پر وہاں سے چلے آتے ہیں، لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ یہ بچے جو ان خواتین نے گودوں میں اُٹھا رکھے ہوتے ہیں کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیا یہ ان کے اپنے بچے ہوتے ہیں یا ان کو کہیں سے کرایہ پر حاصل کیا گیا ہوتا ہے؟ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب بھی یہ خواتین بھیک مانگنے کے لئے سامنے آتی ہیں تو یہ بچے ہمیشہ سو کیوں رہے ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بچہ کبھی جاگ کیوں نہیں رہا ہوتا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان بچوں کو افیون کھلا کر سُلا دیا جاتا ہے تاکہ بھیک مانگنے والی خواتین کے لئے ان کو اٹھا کر موومنٹ کرنا اور بھیک مانگنا آسان ہو جائے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عوام تو چلیں نظر انداز کر دیتے ہیں، کیا انسانی حقوق کے علمبردار افراد اور ادارے بھی اس معاملے پر کبھی نہیں سوچتے؟ کیا انہیں بھی معاملات کی گمبھیرتا کا کبھی احساس اور ادراک نہیں ہوتا؟ کبھی کسی نے ان معصوم بچوں سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے ساتھ کوئی زبردستی تو نہیں کر رہا؟ کیا وہ والدین کے پاس رہتے ہیں؟ کیا وہ گھر کی معاشی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگتے ہیں یا کوئی اور ان کو یہ کام کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

کہا جاتا ہے اغواء کرنے والے اور گداگر مافیاز کے کارندے منظم طور پر مختلف شہروں سے اغوا شدہ بچوں کو ٹھیکے پر لے کر آتے ہیں۔ علاقوں کو منتخب کر لیا جاتا ہے اور بھکاری بچوں کو مختلف نوعیت کی ٹرانسپورٹ میں بٹھا کر مقررہ جگہوں پر لے جایا جاتا ہے جہاں بچے اگر بڑے ہوں تو خود بھیک مانگتے ہیں، اگر چھوٹے ہوں تو گداگر خواتین ان کو گودوں میں لئے پھرتی ہیں۔ بھیک منگوانے کے علاوہ ان بچوں سے مشقت لی جاتی ہے، انہیں جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کی برین واشنگ کر کے  انہیں ملک اور معاشرے کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

بچوں کی اغوا کاری کے اس سلسلے کو روکنے کے لئے کئی سطح پر کئی طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ان مقامات کی سکیورٹی فول پروف بنائی جانی چاہیے جہاں سے بچے اغواء ہوتے ہیں جیسے ہسپتال‘ میٹرنٹی سینٹر اور چلڈرن پارکس وغیرہ۔ بچوں کے ساتھ آئے ہوئے والدین یا گارڈینز کو اپنے بچوں کے علاوہ قریب کھیلتے ہوئے دوسرے بچوں پر دھیان رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس بات کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ جس پارک میں وہ اپنے بچوں کو لے جا رہے ہیں وہاں پر کوئی مشتبہ شخص یا مشتبہ افراد کا گروہ تو مڈلاتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ اگر ایسی کوئی صورت حال نظر آئے تو اس کے بارے میں فوری طور پر پولیس یا انتظامیہ کو آگاہ کرنا چاہیے۔

 اسی سلسلے کی دوسری کڑی یہ ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کو اس امر کی تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ کسی غیر معمولی صورت حال کا سامنا کر سکیں۔ انہیں بتایا جانا چاہیے کہ کسی بھی غیر شخص یا عورت کی کسی بھی پیشکش کو کبھی قبول نہیں کرنا چاہے وہ ٹافیوں کی شکل میں ہو یا کھلونوں کی شکل میں اور یہ کہ کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ انہیں کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے جسے وہ نہیں جانتے۔ پارکس، شاپنگ مالز، مقامی بازاروں اور تعلیمی اداروں میں ایک بات مشترک یہ کہ وہاں ہجوم بھی ہوتا ہے اور نظر رکھنے کا نظام بھی نہیں ہوتا۔ اِسی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے لئے کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، لہٰذا والدین اور سرپرستوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان جگہوں پر زیادہ احتیاط سے کام لیں۔

 اس سلسلے کا تیسرا معاملہ یہ ہے کہ پولیس کو بہرحال مستعد ہونا پڑے گا کہ بچوں کے اغواء کے سلسلے کو کیسے روکا جا سکے اور اس امر کا پتا کیسے چلایا جائے کہ جو بچے اغواء ہوتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں۔ اغواء مافیا اور گداگر مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہاں اُجڑی ہوئی گودیں نظر آئیں گی اور ہر جگہ گداگروں کی یلغار‘ جو اب بھی کم نہیں ہے۔ ایک بڑے انسانی المیے کو رونما ہونے سے پہلے روکنا ہی دانش مندی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -