لاس اینجلس میں ہلاکتوں اور متاثرہ علاقے میں اضافہ، ایک آگ پر 11 اور دوسری پر صرف 15 فیصد قابو پایا جاسکا، اہم ترین تفصیلات جانئے
لاس اینجلس (ڈیلی پاکستان آن لائن) لاس اینجلس حکام نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی شدید جنگل کی آگ میں اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 12 ہزار سے زیادہ عمارتیں تباہ یا متاثر ہوئی ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق سب سے بڑی آگ، جن میں ایٹن اور پیلیسیڈز کی آگ شامل ہیں، مسلسل پھیل رہی ہیں، اور ہفتہ کے روز نئے انخلاء کے احکامات جاری کیے گئے۔ پیلیسیڈز کی آگ 22 ہزار 600 ایکڑ زمین کو جلا چکی ہے ۔ اس آگ پر اب تک صرف 11 فیصد قابو پایا گیا ہے، جبکہ ایٹن کی آگ جو آلٹاڈینا علاقے کو متاثر کر رہی ہے، نے 14 ہزار ایکڑ زمین کو جلایا ہے اور اس پر 15 فیصد قابو پایا گیا ہے۔
آنے والے دنوں میں ہوائیں 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ماہرین موسمیات نے لاس اینجلس ٹائمز کو بتایا "ہمارا خدشہ یہ ہے کہ ہوائیں آج رات سے تیز ہوں گی اور پھر پیر سے بدھ تک جاری رہیں گی۔"
آگ نے کمیونٹیز کو تباہ کر دیا ہے، پورے محلوں کو راکھ میں بدل دیا گیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس تباہی کو "جنگ کے میدان جیسا" قرار دیا ہے۔ لوٹ مار کو روکنے کے لیے انخلاء شدہ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، اور کم از کم دو درجن گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔
عوامی ناراضگی میں اضافے کے ساتھ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے ریاست کی تیاری اور ردعمل کے بارے میں آزادانہ جائزے کا حکم دیا ہے۔ ابتدائی آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران پانی کی کمی پر غصہ بڑھ گیا ہے۔
ریسکیو ٹیمیں جو کڈاور ڈاگ (لاشوں کی تلاش کے لیے تربیت یافتہ کتے) سے لیس ہیں، ملبے میں لاپتہ افراد کی تلاش کر رہی ہیں۔ حکام کو خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جنگل کی آگ نے تقریباً 12 ہزار عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے، حالانکہ یہ سب رہائشی عمارتیں نہیں تھیں۔ اب تک سب سے بڑی آگ میں 426 گھروں کے جلنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
جنگلل کی آگ نے زہریلا دھواں خارج کیا ہے، جس کے باعث لاس اینجلس کاؤنٹی نے صحت عامہ کی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ رہائشیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بیرونی سرگرمیوں کو محدود کریں اور ہوا صاف کرنے والے نظام کا استعمال کریں۔
آگ کی وجوہات جاننے کے لیے ایک وفاقی تحقیقات جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ قدرتی عوامل اکثر ایسی آگ بھڑکاتے ہیں لیکن اس معاملے میں انسانی سرگرمیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین نے کہا ہے کہ وائلڈ فائر کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شدت کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، طویل خشک سالی، اور خشک پودوں سے ایسی آگ کے تیزی سے پھیلنے کے لیے سازگار حالات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے مزید کمیونٹیز خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
ایف بی آئی آگ سے متعلق ایک ڈرون واقعے کی بھی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایک سویلین ڈرون پیلیسیڈز کی آگ بجھانے میں مصروف ایک کینیڈین "سپر سکوپر" طیارے سے ٹکرا گیا۔ تصادم کے بعد طیارے کو گراؤنڈ کر دیا گیا۔
کینیڈا کے ساتھ ساتھ میکسیکو نے بھی کیلیفورنیا میں ریسکیو اور آگ بجھانے کے کام میں شمولیت اختیار کی ہے۔ میکسیکو کے 14 ہزار سے زیادہ فائر فائٹرز امریکی ریاست میں پیلیسیڈز کی آگ سے لڑنے کے لیے موجود ہیں۔