میٹرک رزلٹ! سرکاری سکولز پھر مات دے گئے

میٹرک رزلٹ! سرکاری سکولز پھر مات دے گئے
میٹرک رزلٹ! سرکاری سکولز پھر مات دے گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 میٹرک کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے پنجاب کے لاہور، راولپنڈی،سرگودھا، ڈی جی خان، بہاولپور، ملتان، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہیوال بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے بچے بچیوں کے لئے حکومت پنجاب نے 25کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔لاہور بورڈ سے پاس ہونے والے طلبہ طالبات کا تناسب 69 فیصد، راولپنڈی میں 73.49فیصد، سرگودھا 77.61 فیصد، ڈی جی خان 82.38 فیصد، بہاولپور سے 75.49فیصد، گوجرانوالہ 79.93، فیصل آباد 79.75 فیصد، ملتان سے 78.6 فیصد، ساہیوال کا72.49 فیصد رہا ہے۔ کروڑوں طلبہ طالبات نے میٹرک کا متحان دیا، صرف لاہور کا جائزہ لیں تو ڈھائی لاکھ طلبہ طالبات نے امتحان دیا جن میں سے ایک لاکھ74 ہزار امیدوار پاس ہوئے ہیں، 75ہزار بچے فیل ہوئے ہیں۔آج کالم میں فیل پاس ہونے والوں کے تناسب کو ایک طرف رکھ کر جس چیز کا جائزہ لینا ہے پنجاب بھر کے بورڈز میں پوزیشنز لینے والے بچے بچیوں کا تعلق کن اداروں سے ہے۔

خوش آئند بات ہے پنجاب کے نوجوان وزیر تعلیم بڑے جذبے والے اور سرگرم شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے لاہور بورڈ کے پوزیشن ہولڈر بچے بچیوں کے لئے خصوصی تقریب کا انعقاد کیا اور نقد انعامات کے علاوہ مستقبل کے لئے کیمبرج میں داخلوں تک معاونت کا اعلان کیا۔بات پھر دوسری طرف چلی گئی آج کے کالم میں پنجاب کے عوام کے سامنے کچھ حقائق رکھنے ہیں گزشتہ حکومت جو پی ڈی ایم کی تھی اور موجودہ حکومت جو مریم بی بی کی ہے اس نے سرکاری سکولوں کو پمفPEF کے سپرد کرنے کے منصوبے کی بُری طرح ناکامی کے باوجود ذمہ داری سنبھالنے کے فوری بعد مغرب اور آئی ایم ایف کے مسلط کردہ پبلک سکولز ری آرگنائزیشن پروگرام (PSRP) کے نام سے دوبارہ شروع کر کے فیز ون میں 5863 سرکاری سکولوں کی چین (Chain) سکولز مافیا،اور این جی اوز کے سپرد کرنے کا منصوبہ متعارف کرایا،اربوں رپے مالیت کے سکولوں،کروڑوں روپے مالیت کی زمین رکھنے والے سرکاری سکولوں سے جان چھڑانے کے خوفناک منصوبے کا نہ صرف آغاز کر دیا گیا ہے، بلکہ سرکاری سکولوں کے خلاف ایسی مہم چلائی گئی جیسے سرکاری سکول اِس وقت ملک قوم کے لئے معمار پیدا کرنے کی بجائے دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد کی کمی اساتذہ کی کم تعداد کو جواز بنایا گیا ہے،حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے منصوبے کے تحت سرکاری سکولوں کے نظام کو سبوتاژ کرنے کے لئے نئے اساتذہ کی بھرتی نہیں کی گئی، سازش کے تحت اساتذہ کو مردم شماری الیکشن اور دیگر سرکاری ڈیوٹی تک محدود رکھا گیا ہے۔سرکاری سکولوں کو ایجوکیشن مافیا اور این جی اوز کے سپرد کرنے کے لئے ”25A“  کا حوالہ دیتے ہوئے قانونی تحفظ دینے کی کوشش کی گئی اس پبلک پارٹنر شپ منصوبے میں بتایا گیا سرکاری سکولوں کا نظام این جی او یا بڑے سکولوں کے مالکان یا انفرادی شخصیات سنبھالیں گی، حکومت بچوں سے کوئی فیس نہیں لے گی،بلکہ 600 روپے فی بچہ کے حساب سے حکومت فنڈ فراہم کرے گی، اس کے پیچھے کی کہانی کا انکشاف ہوا ہے یہ فنڈ بھی ورلڈ بنک اور این جی اوز کا سرپرست مغرب فراہم کرے گا۔اس سارے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے بھی پنجاب کے نوجوان وزیر رانا سکندر نے پنجاب بھر کے سکولوں کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں کو اسمبلی میں بُلا کر کھانا کھلانے اور اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی اساتذہ تنظیموں نے دو ٹوک انداز میں ری آرگنائزیشن کے نام پر شروع کئے گئے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کرنے اور عوام الناس کو آگاہ کرنے کا اعلان کیا تھا، اساتذہ تنظیموں کی طرف سے پبلک پارٹنر شپ کے منصوبے کو روکا نہیں گیا،بلکہ فیز ون پر کام جاری ہے۔این جی او اور سکولز چین اور انفرادی طور پر درخواستیں دینے والوں کی سکورٹنی جاری ہے، جلد5500 سے زائد سکولز ان کے سپرد کر دیئے جائیں گے  درمیان میں سرکاری سکولوں کے خلاف ہونے والی سازش کا تذکرہ آ گیا، موجودہ پنجاب حکومت کے پانچ ماہ میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا جب قوم کو باور نہ کرایا گیا ہو سرکاری سکول حکومت اور عوام پر بوجھ ہیں،حالانکہ پاکستان اور پنجاب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اندزازہ ہوتا ہے۔ پنجاب کے سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل شخصیات حکومتی سطح پر بیورو کریسی  میں اور بین الاقوامی سطح پر ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جو ملک قوم کا نام روشن کر رہی ہیں۔اپنے انٹرویو میں فخر سے سرکاری سکول کا نام بھی بتاتے ہیں اور اپنے اساتذہ کا تذکرہ بھی احترام سے کرتے ہیں،زمینی حقائق کے مطابق دیکھا جائے تو سرکاری سکولز ہی ہیں،جنہوں نے پاکستان کے نامور کھلاڑی پیدا کیے،کیونکہ سرکاری سکول ہی ہیں جن کے پاس کھیل کے میدان بڑی تعداد میں موجود ہیں،ان کی اپنی زمین اور فصلیں ہیں اگر بہتر منصوبہ بندی کی جاتی،ان سکولوں کو بوجھ نہ سمجھا جاتا تو سرکاری سکولوں کی اربوں روپے کی زمینوں کو کمرشل بنیادوں پر استوار کر کے سکولوں کو خود مختاری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے،ان کے اخراجات پورے کیے جا سکتے تھے، مگر ایسا نہیں کیا گیا،قوم کو آئی ایم ایف اور قوم کے مستقبل کے نونہالوں کو این جی او کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش جاری ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی، پنجاب بھر کے بورڈز کے میٹرک نتائج میں سرکاری سکولوں نے ایک دفعہ پھر لوہا منوایا ہے، بدترین کردار کشی مہم کے باوجود لاہور بورڈ میں پہلی تین پوزیشنز گورنمنٹ سکولز کے طلبہ نے حاصل کی ہیں۔پہلی پوزیشن گورنمنٹ سکول راجہ جھنگ، دوسری پوزیشن گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لاہور نے حاصل کی، ساہیوال بورڈ میں پہلی پوزیشن سرکاری سکول کے بچوں نے حاصل کی ہے، سرگودھا بورڈ میں ضلع بھکر کی دس پوزیشنوں میں سے سات پوزیشنیں گورنمنٹ سکولز کی ہیں۔ڈی جی خان دو پوریشن سرکاری سکولوں کے بچوں نے حاصل کی ہیں، راولپنڈی بورڈ میں تین پوزیشن سرکاری سکولز کے بچوں نے حاصل کیں۔ بہاولپور میں آٹھ پوزیشنیں سرکاری سکولوں نے حاصل کی ہیں۔ اگر سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کی کامیابی کا تناسب دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے سستے سرکاری سکولوں کا رزلٹ 77.43 فیصد، مہنگے پرائیویٹ سکولوں کا رزلٹ 56.61 فیصد رہا۔سرکاری سکولوں کے صرف22فیصد طلبہ فیل ہوئے، ایک لاکھ اساتذہ کی کمی کے باوجود2024ء کے میٹرک کے نتائج میں سرکاری سکولوں کا رزلٹ شاندار رہا۔ دلچسپ بات سامنے آئی ہے پرائیویٹ سکولز کی چینز (Chaines) دس دس سکولوں میں چند بچوں کے نمبروں کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں۔ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہی کے سکولز پوزیشن حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔حقائق اس کے برعکس ہیں عوام اور حکمران دونوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے، پنجاب کی پہچان اور شان پنجاب سکول میں ان کو فروخت کرنے یا جان چھڑانے کی بجائے ان کی حالت زار بدلنے کے لئے اساتذہ تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے، سرکاری سکولوں کو ٹکے نوکری کرنے کی بجائے سرکاری سکولوں کی ساکھ بحال کرنے کے اقدامات کیے جائیں اور اساتذہ کی کمی کو دور کیا جائے، پھر نتائج کو سامنے رکھا جائے۔ میٹرک کے موجودہ نتائج نے ثابت کیا ہے آج بھی سرکاری سکول نمبر ون ہیں پرائیویٹ سکولوں کی پوزیشنیں سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -