جنات کا غلام۔۔۔چھٹی قسط

جنات کا غلام۔۔۔چھٹی قسط
جنات کا غلام۔۔۔چھٹی قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘

پانچویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

بابا تیلے شاہ میرے لئے ایک معمہ ثابت ہوا۔ میں کوئی مشہور شخص تو تھا نہیں کہ لوگ مجھے ملنے کے مشتاق ہوتے یا میرا کوئی خاص حوالہ ملاقات پر مجبور کر دیتا۔ بابا تیلے شاہ کا یہ کہنا کہ اسے میرا ہی انتظار تھا اور اس نے صرف مجھے اپنے پاس بلانے کے لئے ڈرامہ کیا تھا۔میرے لئے حیرانی کا باعث تھا ، میں سوچنے لگا کہ کون سا ڈرامہ؟ کیا غازی کا منڈی میں آ کر کیلے کھانا ایک ڈرامہ تھا یا بابا تیلے شاہ کا اس کو نور بخش کے بدن میں قید کرکے مارنا ڈرامہ تھا۔ بالفرض یہ ڈرامہ ہی تھا تو غاری اس کا کردار کیسے بن گیا۔ میں اپنے سوالوں کا جواب دریافت نہ کر سکا تو بابا تیلے شاہ تبسم ریز انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ”پڑ گئے ناں سوچوں میں بھول بھلیوں میں کھو گئے ہو کیا۔“
”ہاں سرکار .... میں سوچ رہا ہوں آپ کس قسم کے ڈرامے کی بات کر رہے ہیں۔ میں کچھ سمجھا نہیں ہوں۔“ میں نے اپنی الجھن بیان کی۔
”ہم ڈھونگی ہمارا روپ ڈھونگ .... آہا“ بابا تیلے شاہ کے لبوں سے مسکان غائب ہو گئی اور ایک تلخی کی لہر اس کے چہرے پر نمودار ہوئی” ہم لوگ بڑے ہی کمینے ہیں میاں۔ ڈھونگ رچا کر اپنا من مارتے پھرتے ہیں۔ میں بھی اک ڈھونگ ہوں۔ ایک بے وقعت‘ حقیر انسان جو دنیا میں خود کو طاقتور اور اہم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ڈھونگی ہی کہلاتا ہے بچے۔ لوگ سمجھتے ہیں بابا تیلے شاہ بڑی طاقتور شے ہے۔ توپ ہے توپ بابا تیلے شاہ۔ مگر سچ یہ ہے میاں بابا تیلے شاہ تو ایک (تنکا) تیلا ہے تیلا۔ ذرا ہوا چلی تو اڑ گیا ،کبھی یہاں کبھی وہاں۔ تو ہی بتا کہ ایک تیلے کی کیا حیثیت ہے۔“
”بابا جب یہ تیلا آنکھ میں پڑ جائے تو پھر پتہ چلتا ہے تیلے کی وقعت کا ہے“ میں نے ذرا شگفتگی سے جواب دیا۔
”اوئے تم سب تیلے ہو۔ ایک دوسرے کی آنکھ میں خواہ مخواہ جا گرتے ہو۔ تم لوگوں کو ذرا ایک دوسرے کا خیال نہیں ہے۔ آہ مگر تم لوگوں کو پتہ نہیں کہ تمہاری وقعت کیا ہے۔ میرے سوہنے رب نے تمہیں کیا بنا کر دنیا میں بھیجا تھا اور تم لوگ کیا بن بیٹھے ہو“ وہ تاسف بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا بابا تیلے شاہ کا فلسفہ کچھ کچھ میری سمجھ میں آ رہا تھا۔ لیکن میں کبھی بھی فلسفہ سننے کے موڈ میں نہیں ہوتا۔ میں تو سیدھی اور حقیقی بات سمجھنے والا ایک نوجوان تھا لہٰذا میں نے اپنا سوال دہرایا۔
”بابا آپ کس ڈرامے یا ڈھونگ کا ذکر کر رہے تھے اور آپ کو میرا انتظار کیوں تھا؟“
”بڑا بے صبرا ہے تو۔ تجھے جلدی ہے جانے کی۔ میں سمجھ سکتا ہوں تو کہاں جانے کے لئے مچل رہا ہے۔ کچھ دیر اس تیلے کے پاس بیٹھا رہ جائے گا تو تجھے کیا فرق پڑے گا“ اس بار اس کے چہرے پر افسردہ سی خوشی کا تاثر پیدا ہوا تھا۔
”جی بابا میں بیٹھا ہوں آپ فرمائیں“ میں نے محسوس کیا کہ بابا اشاروں کنایوں میں کچھ کہنا چاہتا ہے مگر جب تک میں اس کے پاس آرام سے نہیں بیٹھوں گا وہ کھل کر بات نہیں کرے گا۔
”ترے پاس پیسے بہت ہیں کیا؟“ بابا نے سوال کیا۔ ”لا کتنے ہیں“ اس نے ہتھیلی پھیلا دی ”میں بھی آئس کریم کھانا چاہتا ہوں“
”میں نے کچھ کہے بنا جیب سے آخری پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور بابا کی سوکھی مریل سی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بابا کچھ لمحوں تک پچاس کے نوٹ کو گھورتا رہا۔ پھر یکدم مسکرا دیا۔
”لے اسے جیب میں رکھ لے۔ اللہ تجھے بہت دے گا۔ تیرا من سکھی کر دے گا“بابا بولا ”میں تو تیرا تردد دیکھ رہا تھا کہ تو دیکھنے میں کتنا روکھا ہے ، پر تیرا من تو صاف نکلا“
”میں لا دوں آئس کریم“ میں نے کہا
”نہ بچے .... تیرا یہ بابا آئس کریم نہیں کھاتا۔ میرا من تو پہلے ہی بہت ٹھنڈا ٹھار ہے۔ آئس کریم تو اسے کھلاﺅ جو آگ میں جلتا ہے اور جس کا سارا اندر آگ ہے۔“
”جی بابا .... میں سمجھا نہیں“
”غازی .... ارے تیرا غازی یار۔ بڑا ندیدہ اور آتشی ہے۔ میں اسی کا کہہ رہا تھا“ بابا ہنسا ”تیرا یہ یار کہتا ہے کہ وہ شرارتیں کرتا ہے لیکن وہ چوریاں کرتا ہے چوریاں۔ تیرے بابا جی تمہیں سمجھاتے ہیں کہ غازی کو پیسے نہ دیا کرو۔ مگر پیسے نہ بھی ہوں تو ندیدہ ادھر آ جاتا ہے اور چوری چوری پھل کھاتا رہتا ہے۔ گلا سڑا نہیں کھاتا تازہ پھل کھا جاتا ہے۔ آڑھتی مجھ سے آ کر کہتے تھے کہ ان کے پھل نہ جانے کیسے غائب ہو جاتے ہیں۔ گوداموں کو باہر سے تالا لگا ہوتا ہے مگر اندر سے مال کا غائب ہو جانا انہیں تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں حقیقت جان گیا۔ آج جب وہ تیرے ساتھ منڈی میں آیا اور اپنی کارروائی ڈال رہا تھا میں نے اس پر اپنا جال پھینک دیا اور اس کی نگرانی کرنے لگا۔ جب تم اس کے کان میں اس کو سرزنش کر رہے تھے تو میں سن رہا تھا۔ مجھے تمہارے اور اس کے تعلقات کا علم ہو گیا اور میں نے خواہش کی کہ تم اس بابے کی کٹیا میں آﺅ اور بتاﺅ کہ غازی اور اس کے والی وارثوں کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے۔ میرے سوہنے اللہ نے میری لاج رکھ لی اور تم اس بابے کے پاس آ گئے۔“
بابا تیلے شاہ ایک مجذوب دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا فلسفہ اور باتیں سن کر لگتا تھا کہ وہ صرف مجذوبانہ انداز ہی اختیار کئے ہوئے تھا درحقیقت ایک نظربیں انسان تھا۔ اردگرد کی دنیا پر گہری نظریں رکھتا تھا ۔۔۔لیکن تھا وہ اللہ والا۔۔۔۔ یہ اللہ والے بھی بڑے پراسرار انسان ہوتے ہیں۔ باہر سے روکھے سوکھے اندر سے ہرے بھرے۔ چہروں پر عجیب سی بے زاری دلوں میں طمانیت کا نور.... ان کے اندر ایک جہاں آباد ہوتا ہے اور وہ اس جہان کی گہما گہمی میں مصروف رہتے ہیں۔ بابا تیلے شاہ کے اندر بھی روحانیت کا ایک جہاں آباد تھا۔ اسی لئے تو وہ مجھ سے ایسی معرفت کی باتیں کہہ گیا تھا جو ایک عام انسان کے بس میں نہیں ہوتیں۔
ہم لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں پڑھے‘ لکھے‘ دنیاوی تعلیم کی وجہ سے دانشور‘ فلاسفر اور نہ جانے کیا کیا القابات خطابات حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہوتے ہیں۔ ہماری نظروں میں یہ مجذوب لوگ خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ان کا لباس وضع قطع دیکھ کر ان سے کراہت اور دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم ان کے اور اپنے بیچ تفاوت کا جو بیج بوتے ہیں درحقیقت وہی تفاوت اور خلیج دو دنیاﺅں کی حقیقتوں کو آشکار کرتی ہے۔ یہ بابے اور مجذوب ابدی دنیا کے باشندے ہوتے ہیں ان پر ہماری دنیا کی حقیقت بے نقاب ہوتی ہے وہ روح سے کلام کرنا جانتے اور انسان کے بطور اشرف المخلوقات کہلوانے کی وجوہات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ہم دنیاوی لوگوں کی اور ان بابوں کی ”پہچان“ میں بہت فرق ہے۔ ہماری دنیاﺅں اور انسان کی روحانی قوتوں کی حقیقت کی ”پہچان“ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ بابے فطرت اور حقائق کی پہچان سے آگاہ ہوتے ہیں‘ انہیں انسان کے زمین پر آنے کے مقاصد معلوم ہوتے ہیں اللہ وحدہ لا شریک سے ان کا عشق اسی آگہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر ہم انسانوں کو فطرت کی پردہ پوشیوں اور اس میں پنہاں قوتوں کا اس قدر ادراک نہیں ہوتا۔ ہماری ”پہچان“ خالص نہیں ہے۔ بابا تیلے شاہ جیسے ملنگ‘ مجذوب‘ اللہ والے کے پاس بھی ایک خالص قوت تھی۔ وہ قوت جو انسان کے بدن میں چھپی روح کا خاصا ہوتی ہے۔ مجھے بابا تیلے شاہ کی ذات میں دلچسپی پیدا ہونے لگی اور ایک صحافی کی حیثیت میں میرے اندر بہت سے سوالات جنم لینے لگے۔ میرا دل مچلنے لگا کہ بابا تیلے شاہ سے دریافت کروں کہ اس نے یہ آگہی کیسے حاصل کی۔ کیا اس نے کچھ علوم سیکھے تھے یا اس میں پیدائشی طور پر یہ قوتیں پنہاں تھیں۔ میں بابا تیلے شاہ کی کٹیا کا جائزہ لے چکا تھا اور مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ نماز کا اہتمام کرتا ہو گا۔ نہ مصلیٰ‘ نہ لوٹا نہ تسبیح‘ نہ متبادل اور پاکیزہ لباس۔ میلی کچیلی دھوتی .... میرے دل میں آیا کہ یہ بندہ صاحب ایمان کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی درویشانہ اور فلسفیانہ باتیں سن کر میں اسے ایک شرعی بندہ کیسے تسلم کر لوں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اگر بابا تیلے شاہ ایمان والا ہے تو اس کی کٹیا میں صفائی کیوں نہیں۔ اگر یہ پہنچا ہوا بزرگ ہے تو یہ نماز کہاں اور کیسے پڑھتا ہو گا۔ میرے جیسے بندے تو نماز کے بغیر کسی کے ولایت زدہ اور روحانی بزرگ ہونے کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ لہٰذا بابا تیلے شاہ کے پاس روحانی قوتوں کی موجودگی سے میرے اندر سوالات اور تجسس بیدار ہونا ایک فطری بات تھی۔ میں جب خاصی دیر تک بابا تیلے شاہ کی ذات میں کھویا رہا تو بابا تیلے شاہ نے اچانک سوال کر دیا۔
”کس نتیجہ پر پہنچے ہو میاں .... اس گتھی کا کوئی سرا ملا کیا؟“
”کک .... کس گتھی کا سرا!“ میں نے ہڑبڑا کر پوچھا۔
”کہ یہ بابا کون ہے۔ نماز پڑھتا ہے کہ نہیں“ بابا تیلے شاہ کے سوکھے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی ”تم جاننا چاہتے ہو کیا“ بابا تیلے شاہ نے استفسار کیا۔
”ہاں بابا جانتا چاہتا ہوں۔ یہ بھید کیا ہیں؟“ میں نے الجھے ہوئے انداز میں سوال کیا ”کہیں ایسا نہ ہو میرا ایمان تباہ ہو جائے۔ میں جب آپ جیسے لوگوں کے پاس آتا ہوں تو میری کیفیات بدل جاتی ہیں“
”دھیرے دھیرے سے سمجھ جاﺅ گے۔ لیکن پہلے مجھے اپنے غازی اور اس کے پرکھوں کے بارے میں کچھ بتاﺅ۔ پچھلے چند دنوں سے یہاں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ جنات کی پکھیاں رات بھر سفر کرتی رہتی ہیں۔ پہلے تو ایسی گہما گہمی نہیں تھی لیکن جب سے یہ غازی زمین پر اترا ہے اس کے بعد اس پورے علاقے کے جنات نے ایک جشن کا سا سماں باندھ رکھا ہے“
”مجھے کیا معلوم سرکار“ میں نے حیران ہو کر کہا ”میں کیا جانوں“
”تو جانتا ہے۔ سب جانتا ہے کہ یہ غازی کون ہے“ بابا تیلے شاہ نے ابرو تان کر کہا۔
”ہاں .... یہ تو جانتا ہوں“ میں نے ساری تفصیل بیان کر دی اور غازی کے علاوہ بابا جی سرکار ان کے مرشد حاجی صاحب سرکار اور پیر ریاض شاہ کے بارے جو کچھ معلوم تھا بتا دیا کہ ان سے میری ملاقات کب ہوئی۔
”صرف چار دنوں کے تعارف میں اتنے فاصلے طے کر لئے ہیں تو نے شاہد میاں“ بابا تیلے شاہ گھمبیر لہجے میں بولا ”مگر تو ابھی حقائق سے دور ہے۔ تجھے شوق ہے ان دنیاﺅں کو کھوجنے کا۔ مگر اتنا زیادہ نہ کھوج .... ورنہ بھٹک جائے گا۔ دنیا سے کٹ جائے گا۔ کسی کام کا نہ رہے گا۔ جنات سراپا آتش ہیں۔ ان سے دوستی سے باز رہ۔ ایک عام انسان کسی جن کی دوستی برداشت نہیں کر سکتا وہ اس کا غلام بن جاتا ہے۔ ہاں اگر تیرے پاس علم کی طاقت ہو تو تب انہیں برداشت کر سکتا ہے۔ دیکھ ادھر .... میری کٹیا سے باہر جنات سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں میں ان سے اپنے لئے خدمت لوں لیکن میں انہیں دھتکار دیتا ہوں۔ یہ وہی جنات ہیں جو بہت سی درگاہوں پر جھاڑو لگاتے ہیں۔ یہ بزرگوں سے روحانی فیض حاصل کرنے آتے ہیں۔ جنات علم سیکھنے کے بہت زیادہ مشتاق ہوتے ہیں۔ مگر میں ان سے باز ہی رہتا ہوں۔ مجھے میرے مرشد نے سمجھا دیا تھا کہ جنات کو ایک فاصلے پر ہی رکھنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے مرشد نے جنات کو تعلیم دینا شروع کی تھی جنات نے ان سے کچھ ایسے علوم بھی سیکھ لئے جن کا وہ غلط استعمال کرنے لگے تھے اور اپنے علم کے تکبر میں مبتلا ہو کر انہوں نے انسانوں کو خراب کرنا شروع کر دیا۔ پس میں اس آگ میں کودنے سے باز ہی آیا۔ اس لئے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ غازی کو اتنا منہ نہ لگایا کر۔ میں تیری اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اسی لئے تجھے تکلیف دی۔“

ساتویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں