ملکی معیشت، آئی ایم ایف سے ڈیل، لندن میں مشاورت کا اہم نکتہ

ملکی معیشت، آئی ایم ایف سے ڈیل، لندن میں مشاورت کا اہم نکتہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تجزیہ: نوشاد علی

      وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ملک میں وقت سے پہلے انتخابات کرانے کے بارے میں بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر میڈیا پر پیش کیا گیا۔ کیپیٹل ٹاک میں حامد میر سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ یہ بات آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال کے جواب میں کہی گئی تھی۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ زرداری صاحب نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا، صرف ن لیگ نہیں بلکہ مخلوط حکومت میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا یہی موقف ہے کہ الیکٹورل ریفارمز سے پہلے انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ میڈیا میں دن بھر خواجہ آصف کے بی بی سی سے انٹر ویو کے بارے میں چرچا رہا جس میں خواجہ آصف نے نومبر سے پہلے انتخابات کا عندیہ دیا تھا اور اس کے بعد ہی ملک بھر میں بحث چھڑ گئی۔ یہ بحث چھڑنا فطری تھا کیونکہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے وزیراعظم کو کابینہ کے اہم (ن) لیگی وزرا ء کیساتھ لندن طلب کیا تھا اور شہبازشریف ان وزراء کیساتھ لندن پہنچنے والے تھے۔ لندن مشاورت کے بارے میں میڈیا میں یہ تاثر عا م تھا کہ یہ مشاورت جلد انتخابات سے متعلق ہے کیونکہ (ن) لیگ تحریک انصاف کی جانب سے معیشت کی بہتری کی راہ میں بچھائی گئی لینڈ مائنز سے ٹکرائے بغیر آگے نہیں بڑھ پا رہی۔ شہباز شریف نے پیر کو کہا تھا کہ وہ ہار ماننے والے نہیں لیکن اس سے قبل چھٹی کے دن یعنی اتوار کو ایک ہی دن میں لاہور کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سے زائدصحافیوں کیساتھ چار مختلف میراتھن میٹنگوں کے بعد چھپنے والی خبروں میں عوام کیلئے کوئی خوشخبری نہیں تھی بلکہ صحافیوں سے بھی حکومتی وزرا ء کی آنکھوں سے پریشانی کے ڈورے چھپائے نہیں چھپ رہے تھے۔ایسے وقت میں جب ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہو، مخلوط حکومت عوام کو کسی قسم کا فوری ریلیف دینے سے قاصر ہو، سٹاک مارکیٹ دن بدن گرتی جا رہی ہو، سونے کی قیمت بڑھ رہی ہو، ڈالر 200 روپے کے قریب جا پہنچا ہو، مہنگائی کا پھندہ عوام کے گلے پر تنگ ہوتا چلا جا رہا ہو،تو خواجہ آصف کا بیان آگ ہی لگا سکتا ہے اور آگ بھی ایسی کہ سابق صدر آصف  زرداری کو فائر فائٹر کا کردار ادا کرنا پڑا۔ اگرچہ خواجہ آصف نے اپنے بیان کی تصحیح کردی لیکن سیاسی میدان اور عوام میں جو ہلچل مچنی تھی مچ گئی، جو بے چینی تھی وہ بڑھ گئی۔ انہوں نے سابق صدرآصف زراداری کی جانب سے اصلاحات کے بغیر نئے انتخابات نہ کرانے، ڈوبتی معیشت کو ساحل تک لانے اور بیوروکریسی کو نیب سے بچانے جیسے اقدامات کرنے کے موقف کی حمایت کی۔ پوری قوم کی نظریں اسوقت لندن مشاورت کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں،گو کہ آصف زرداری کا بھی کہنا تھا کہ وہ نوازشریف سے مشاورت کے بعد ہی میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی ہی نظر آ رہے ہیں، باقی تمام اتحادی جماعتیں کہیں نظر نہیں آ رہیں، نہ تو کسی اور جماعت کا کوئی نمائندہ لندن گیا ہے اور نہ ہی آصف زرداری کیساتھ پریس کانفرنس میں کوئی موجود تھا، اگرچہ اسحاق ڈار صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف تمام اتحادی پارٹیوں کے پارلیمانی  لیڈ ر ز کیساتھ مشاورت کے بعد لندن روانہ ہوئے ہیں لیکن آصف زرداری کی پریس کانفرنس اس دعوے سے میل نہیں کھاتی۔ انہوں نے معیشت کی بہتری کا مبہم سا خاکہ بھی پیش کیا لیکن ان کے سولر پاور کو بطور متبادل ترویج اور سٹیٹ لائف جیسے اداروں کی جزوی پرائیویٹائزیشن جیسے ”آؤٹ آف باکس“ حل اتنے کم وقت میں شاید ہی معیشت کو سنبھالا دے سکیں۔ یہ بات البتہ انہوں نے تسلیم کی کہ آئی ایم ایف پیکیج ملنے تک قوم کو شدید مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا کیونکہ سعودی عرب اور چین سے ملنے والے مشروط پیسے بھی آئی ایم ایف پیکیج کے بغیر ممکن نہیں ہونگے۔ ملک کے معاشی حالات سیاسی استحکام سے جڑے ہیں اور سیاسی تناؤ روز برو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔وقت سے پہلے انتخابات سے متعلق میڈیا رپورٹس کے بارے میں (ن) لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن میں مشاورت ملکی معیشت اور آئی ایم ایف سے متعلق ہو رہی ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ دراصل شہباز شریف اور کابینہ کے اہم لیگی وزراء کو نواز شریف نے اس لیے لندن طلب کیا ہے کہ حکومت سے آئی ایم ایف کو آئندہ مذاکرات میں دی جانیوالی آپشنز پر مشاورت کی جا سکے۔ نوازشریف فی الحال حکومت کے فیصلوں کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں اور مشاورت کیلئے ویڈیو لنک یا دوسرے کسی طریقہ کار پر مطمئن نہیں ہیں۔وزیراعظم آئی ایم ایف سے مذاکرات کیلئے مختلف آپشن ساتھ لیکر گئے ہیں جس میں سب سے اہم پیٹرول پر سبسڈی کے خاتمے کی تین ایسی تجاویز ہیں جن میں غریب آدمی پر ڈیزل اور پیٹرول سے سبسڈی ختم کرنیکی صورت کم سے کم بوجھ پڑنے پر کام کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک کی ٹیموں نے ملکر یہ تجاویز تیار کی ہیں اور ان پر نواز شریف اور اسحاق ڈار سے مشاورت کے بعد منظوری لی جائے گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہباز شریف ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اتحادیوں کی جانب سے دی گئی تمام تجاویز اور حکومتی معاشی روڈ میپ پر بھی نواز شریف اور اسحاق ڈار سے حتمی مشاورت کر رہے ہیں۔
تجزیہ نوشاد علی

مزید :

تجزیہ -