میں رینجرز کے خلاف نہیں ۔۔۔ مگر
پنجاب میں رینجرز کی آمد کے فیصلے پر جہاں کچھ لوگ تشویش کا شکار ہیں وہیں کئی لوگ خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں ۔ ہماری منافقت کا یہ عالم ہے کہ اب ہم ملک کی بقا اور ترقی کو اپنی اپنی پارٹی کے پیمانوں سے ناپتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پنجاب میں رینجرز کی آمد کے فیصلہ پر مکالمہ ہوتا۔ یہاں مختلف شعبوں کے اعلی دماغ بیٹھتے ، صورت حال کا جائزہ لیا جاتا اورپھر یہ طے کیا جاتا کہ پنجاب یا کسی اور صوبے میں رینجرز کو تعینات کرناکیوں ضروری ہے اور ان کے اہداف کیا ہوں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ اب بھی اسی طرح فیصلہ کیا گیا ہو گا لیکن سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں مجھے ایسی بحث نظر نہیں آتی ۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں رینجرز کی تعیناتی کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ جس صوبے میں رینجرز تعینات ہو گی وہاں کی سیاسی حکومت دباؤ کا شکار ہو گی اور سیاسی جماعت کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گا ۔
میں کبھی بھی رینجرز کی شہری علاقوں میں تعیناتی کے خلاف نہیں رہا ۔ رینجرز ، پولیس یا فوج ہمارے ریاستی ادارے ہیں اور ہمیں جب جہاں جس ریاستی ادارے کی ضرورت محسوس ہوگی ہمیں ان سے مدد لینا ہو گی ۔رینجرز ، فوج یا پولیس کو کہیں تعینات کرنا نہ تو ماورائے آئین ہے اور نہ ہی اس میں کسی بھی ادارے کے لئے کسی قسم کی شرمندگی کا عنصر پایا جاتا ہے ۔ میں وہ بحث چھیڑنا چاہتا ہوں جو ہمارے ملک کو مجموعی طور پر کامیابی کی جانب لیجائے ۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ جب کسی فورس کو کہیں تعینات کیا جائے تو اس کی وجہ کیا ہو گی ؟ اسے کون سے اہداف دیئے جائیں گے اور اسے کس فریم میں کام کرنا ہے ۔
لاہور جم خانہ کلب کی شامیں یاد آتی ہیں ۔ کراچی میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر خفیہ آپریشن کرنے والے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو میجر (ر) شبیر سے یہاں نشستیں رہی ہیں ۔ ان دنوں بطور صحافی انٹیلی جنس امور اور دہشت گردی میرا خاص موضوع تھا لہذا ہر بار میجر صاحب سے کوئی نئی کہانی سنانے پر اصرار کرتا تھا ۔ میجر(ر) شبیر نے خفیہ اداروں کے حوالے سے کئی ابہام دور کئے ۔ وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے ٹیلی فون ٹیپ کئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر انہیں اپنے بیٹے پر بھی شک ہوتا تو اس کا فون بھی ٹیپ کرتے ۔ بہرحال کراچی آپریشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں وہ مقامی پولیس کو اپنے ساتھ شریک رکھتے تھے ۔ ان کے ادارے کے پاس جو خفیہ معلومات ہوتیں ان کی بنیاد پرچھاپے مار کر گرفتاریاں کی جاتیں لیکن یہ چھاپے اور گرفتاریاں مقامی پولیس کی مدد سے ہوتی تھیں ۔
میجر شبیر اس لئے بھی یاد آئے کہ اب پھر ہمیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے ۔ ملک دشمن عناصر’’ سافٹ ٹارگٹ‘‘ کو نشانہ بنا کر عوام میں خوف پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب یہ بھی درست ہے کہ موجودہ پولیس ماضی کی پولیس سے کہیں بہتر اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو چکی ہے ۔ جب انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر خفیہ آپریشن کرتے تھے تب پولیس کے پاس ان کی طرح جدید نظام نہیں تھا ۔ اب کم از کم پنجاب کی حد تک تو میں جانتا ہوں کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے اپنی فورس کو آئی ٹی اور جدید اسلحہ کی مدد سے انتہائی قابل بنا دیا ہے ۔ اس کا واضح ثبوت تو لاہور بم دھماکے کے بعد سی سی پی او لاہور امین وینس اور ان کی ٹیم نے دو روز میں خودکش حملہ آور کے سہولت کار کی گرفتاری کے ساتھ ہی پیش کر دیا ہے ۔ بلاشبہ یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے خود پریس کانفرنس کر کے اس کا اعلان کیا ۔ چند ہفتے قبل بھی انہوں نے لاہور میں ڈکیتی اور قتل کے ملزمان کو چند روز میں ہی گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کر کے اپنا لوہا منوایا تھا ۔ مجھے اب اس قدر جلد ایسے ملزمان کی گرفتاری پر قطعاً حیرت نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ڈی آئی جی آپریشن پنجاب عامر ذوالفقار نے صحافیوں کو آئی جی آفس کا دورہ کرایا اور ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ سینٹرل پولیس آفس میں انتہائی جدید سسٹم کام کر رہا ہے ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پنجاب پولیس اپنا ایسا مانیٹرنگ اور انٹیلی جنس سسٹم بنا چکی ہے جس کا اس سے قبل سوچا ہی جا سکتا تھا۔ آئی جی پنجاب کی جانب سے پولیس کو اس حد تک قابل بنانا قابل تعریف ہے ۔
میرے خیال میں اس قدر جدید نظام کے بعد پنجاب میں رینجر کی بجائے پولیس کو اختیارات اور وسائل دے کر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی اگر ضروری ہے تو میں اس کے حق میں ہوں لیکن ہمیں اس کی وجہ ، اہداف اور نتائج کا بھی جائزہ لینا ہو گا ۔ انٹیلی جنس بیورو کے ہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے مجھے بتایا تھا کہ شہری علاقوں میں کامیاب آپریشن کے لئے مقامی پولیس کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ پولیس کو اس علاقے کے لوگوں اور مقامی رویوں کا علم ہوتا ہے ۔ ہر علاقہ میں مقامی پولیس کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر پولیس کو دیگر اداروں سے کہیں پہلے وہاں ہونے والی غیر معمولی حرکت کا علم ہوجاتا ہے ۔ اب تو پنجاب پولیس کے پاس جدید سافٹ ویئرز ،تربیت اور اعلی معیار کا اسلحہ بھی ہے ۔ مجرموں کی فوری گرفتاری کے حوالے سے ان کا ٹریک ریکارڈ بھی تیزی سے اوپر جا رہا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے ہر ضلع میں پولیس پہلے ہی سرچ آپریشنز شروع کر چکی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں ۔ لاہور میں کرکٹ میچ کے دوران پولیس نے جس طرح حالات کو سازگار بنائے رکھا وہ قابل تعریف ہے ۔اس صورت حال میں پولیس کو پیچھے ہٹانے کی بجائے ساتھ لے کر چلنا زیادہ مناسب ہو گا۔سکیورٹی اداروں کے درمیان اعتماد کا یہی تعلق پنجاب میں آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔
دہشت گروں کا نشانہ ہم سب ہیں ۔ لہذا ان کے مقابلے پر بھی پولیس عوام ساتھ ساتھ ہیں ۔ اگر ہم نے پنجاب کو فول پروف بنانا ہے تو ہمیں یہاں ہونے والے ہر ایکشن میں پولیس کو آگے رکھنا ہو گا تاکہ رینجر کی تعیناتی کی مدت ختم ہونے کے بعد ساری کامیابیاں ختم نہ ہو جائیں بلکہ حالات مقامی پولیس کے کنڑول میں ہو ں۔ اس مقصد کے لئے مقامی پولیس کو اعتماد دینے کے ساتھ ساتھ پولیس کے وسائل میں بھی اضافہ کرنا ہو گا ۔ جب ہم پاکستان کی حفاظت کی بات کرتے ہیں تو پھر بات کسی بھی ادارے کی شان کم یا زیادہ ہونے کی نہیں ہوتی بلکہ ہر ادارے کی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے ۔ پنجاب میں بھی پولیس اور رینجرز کے ساتھ ساتھ دیگر اہم اداروں کے اعلی افسران کے درمیان گول میز کانفرنس ضروری ہے جہاں مسائل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اہداف کا تعین ضروری ہے ۔ پنجاب آپریشن میں پولیس کو شامل کرنے سے یقیناًبہتر نتائج حاصل ہوں گے ۔ اس لئے بھی کہ پنجاب پولیس کی قیادت ایک ایسا شخص کر رہا ہے جو خود بھی چار خودکش حملوں کا سامنا کر چکا ہے مگر اس کے باوجود اعلانیہ دہشت گردوں کو شکست دینے کا اعلان کرتا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف رینجرز کے ساتھ ساتھ پولیس کی کامیابیوں اور شہادتوں کا اعتراف ضروری ہے ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔