ڈی آئی جی احمد مبین کی بیٹی کو کون بتائے ؟؟
ہم کس کو پرسہ دیں ؟ ہم کس کا ماتم کریں ۔ یہاں ہم ہی زخمی ہوئے ہیں ، یہاں ہم ہی شہید ہوئے ہیں ۔ ہم جو نبی پاک ﷺکا کلمہ پڑھتے ہیں ۔ ہم جو آسانیاں پیدا کرتے ہیں ۔ کیا واقعی دہشت گردوں کا ٹارگٹ وہ ہنستا مسکراتا ڈی آئی جی ٹریفک تھا جو لوگوں کے لئے راستہ کھلوا رہا تھا ۔ ہمیں تو حکم ہوا ہے، راستے سے پتھر یا کانٹا ہٹا دینا بھی نیکی ہے ۔ وہ بھی تو لوگوں کی مشکلات دور کر رہا تھا ۔ راستے میں بیٹھے پتھر دلوں سے کہہ رہا تھا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے لہذا راستہ بلاک نہ کریں ۔ بلاشبہ شہید ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) سید احمد مبین زیدی اور ایس ایس پی آپریشنز لاہور زاہد محمود گوندل نے ایک مثال قائم کی ہے ۔ ہم صحافی اب کیسے لکھیں کہ پولیس افسران اپنے آرام دہ کمروں تک محدود رکھتے ہیں ؟ یہ ایک عام سی ہڑتال تھی اور ہڑتال بھی حکومت کے خلاف تھی ۔ استعفی کا مطالبہ بھی پولیس سے نہیں بلکہ محکمہ صحت کے ذمہ داران سے کیا جا رہا تھا ۔ صرف اتنا ہوا کہ ہڑتال کرنے والوں نے عام شہریوں کا راستہ بند کر دیا ۔ ٹریفک جام ہونے لگی تو ڈی آئی جی ٹریفک خود احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کرنے چلے گئے ۔ ان کے لئے بہت آسان تھا کہ کسی جونیئر آفیسر کو بھیج دیتے ۔ ایس ایس پی آپریشنز کے لئے کیا مشکل تھا کہ معاملات کنٹرول کرنے کے لئے کسی تھانیدار کو بھیج دیتے ۔ ماضی میں اس سے بڑے احتجاج کو منتشر کرنے کی ذمہ داریاں ڈی ایس پی رینک تک سونپی جاتی رہی ہیں لیکن اب شاید ایسا نہیں ہوتا ۔کہا جاتا ہے کہ جیسا لیڈر ہو ویسی اس کی ٹیم کا رویہ ہوتا ہے ۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کو روکنے کے لئے آدھی رات کو آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے چلے جانے سے منظر نامہ بدل چکا ہے ۔ پولیس کلچر تبدیل ہوا تو شہید ڈی آئی جی احمد مبین اور شہید ایس ایس پی آپریشنز زاہد محمود گوندل جیسے افسران ہمیں میدان عمل میں نظر آنے لگے ۔
مجھے کیپٹن احمد مبین ، زاہد محمود گوندل اور ان کے ساتھیوں کا قصیدہ نہیں لکھنا ۔ انہوں نے جس طرح فرض ادا کیا وہ ساری دنیا دیکھ چکی ہے ۔ میں نے اس سانحہ کی فوٹیج دیکھی ہیں ۔ میں نے اپنوں کو آگ و خون کے دریا میں کودتے دیکھا ہے ۔ اخبارات کے صفحات بھرے جا چکے ہیں ۔ ٹی وی چینلز پر بہت کچھ بتایا جا چکا ہے ۔ میں ایک اور جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس دھماکے کی ایک فوٹیج میں نظر آ رہا ہے کہ دھماکے کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے اپنی جانیں بچانے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ تیزی سے جائے حادثہ کی جانب بڑھے تھے ۔ زخمیوں کو فوری طور پر اٹھا کر ڈالوں میں ڈالا جا رہا تھا ۔ ایمبولینس تو بعد میں آئی تھیں لیکن موقع پر موجود پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں نے جس طرح ہرخوف سے بالاتر ہو کر فوری طور پر زخمیوں کی مدد کی وہ قابل تحسین ہے ۔ ماضی کے برعکس اس بار فوراً ہی کرائم سین کو محفوظ کیا گیا ۔ لوگوں کو مزید قریب جانے سے روکا گیا اور یہ کوشش کی گئی کہ زخمیوں کی جانیں بچانے کے ساتھ ساتھ شواہد کو بھی ضائع ہونے سے بچایا جا سکے ۔ یہاں تو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جائے حادثہ کو دھو کر شواہد مٹا دیئے گئے تھے لیکن اب کی بارصورت حال مختلف تھی ۔ مجھے اس سارے منظر نامے میں فرض شناسی ، بہادری اور ذمہ داری بھرپور انداز میں نظر آئی ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فرض شناسی کی داستان تو ابھی مکمل نہیں ہوئی لیکن سوال کئی اٹھتے ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلے سے کسی حملے کا اندیشہ تھا تو پولیس کیا کر رہی تھی؟ ۔ سوال یہ ہے کہ جب شہید ڈی آئی جی احتجاج کرنے والوں سے بار بار کہہ رہا تھا کہ ہمیں خطرے کا سامنا ہے آپ راستہ کھول دیں تو اس کی بات کیوں نہیں سنی جا رہی تھی ؟ کیا ان لوگوں کی شہادت کا پرچہ ان دوا ساز اداروں کے لیڈروں کے خلاف نہیں کٹنا چاہئے جو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سینئر افسران کی بات ماننے کو تیار نہ تھے ؟یا پھر ان پر جنہوں نے اس احتجاج کی صورتحال پیدا کی؟ احتجاج کے بغیر مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔اور یہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔
ایک پولیس آفیسر اس سانحے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا کہ ہم کیا کریں ؟ جب ان لوگوں کو بتایا جاتا رہا کہ شہر خطرے میں ہے تو یہ لوگ بات ماننے کو تیار نہ تھے کیونکہ انہیں اپنے مفادات کے لئے ابھی لوگوں کی جان سے مزید کھیلنا تھا ۔ اگر انہیں سختی سے منتشر کیا جاتا تو بھی میڈیا پولیس کے خلاف خبریں چلاتا اور ان پولیس افسر ان کو ظالم قرار دیا جاتا ۔ یہ رویہ ہمارے یہاں عام ہے ۔ ہمیں نہ تو ذمہ داری کا احساس ہے اور نہ ہی ہم سانحہ سے پہلے کچھ سننا چاہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جب پورا ملک سوگ میں تھا تب انہی دوا ساز اداروں کی اس احتجاجی تحریک کے لیڈر ارشاد فرما رہے تھے کہ تحریک کو خون مل گیا ہے ۔ ہم استعفوں تک ہڑتال جاری رکھیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ احتجاج کو کس کا خون ملا ہے ؟ کیا ڈی آئی جی کیپٹن مبین ، ایس ایس پی زاہد محمود گوندل اور دیگر اہلکار اس احتجاج میں شامل تھے ؟ اگر نہیں تو کیا پہلے ان کی بات نہ ماننے والوں کو گرفتار کر کے ان کی شہادتوں کا حساب نہیں لینا چاہئے ؟
سچ یہ ہے کہ ہم جنگل کے باسی ہیں ۔ ہم ادویات سستی نہیں کرتے لیکن ڈ اکٹروں کو میڈیکل ریپ کی آڑ میں اپنی ادویات بکوانے پر بیرون ملک کے دوروں سمیت لاکھوں کے پیکجز ضرور دیتے ہیں ۔ ہم شدت پسندوں کا رونا روتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ شدت پسند نہیں جو سکیورٹی الارم سننے کی بجائے تحریک کو تازہ خون دلوانے پر شادیانے بجاتے ہیں ؟ اس دھماکے سے کسی کو فرق نہیں پڑے گا ۔ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے گی لیکن فرق پڑے گا تو شہدا کے خاندانوں کو پڑے گا ۔45 سالہ شہید ڈی آئی جی سید احمد مبین زندہ رہتے تو اگلے برسوں میں یقینا آئی جی بنتے ۔ ان کی تین بیٹیوں اور چھوٹے بیٹے کو تو ابھی یہ بھی احساس نہ ہو گا کہ ان کا کتنا بڑا سہارا چھن گیا ہے ۔ وہ کرکٹ کے بہترین کھلاڑی تھے ۔ میچ کھیلنے جاتے تو اپنی بیٹیوں کو بھی ساتھ لیجاتے تھے ۔ شاید انہوں نے اب بھی اپنی بیٹیوں سے وعدہ کیا ہو کہ پی ایس ایل کا فائنل دکھانے لیجاﺅں گا ۔ یہ وعدہ اب پورا نہیں ہو گا کیونکہ وہ جن کی خاطر مارے گئے انہیں فکر صرف اتنی ہے کہ اب پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہو گا یا نہیں ۔ کیپٹن مبین کی بیٹی کو کون بتائے گا کہ اب پی ایس ایل کا فائنل تو ہو گا لیکن باپ نہیں ہو گا ؟ اسے کون سمجھائے کہ اس کے باپ کے اصل قاتل دوا ساز اداروں کے وہ لیڈر ہیں جو بار بار دہشت گردی کا بتانے کے باوجود ہٹ دھرمی پر آمادہ تھے ۔ ہم کس کو پرسہ دیں ؟ ہم کس کا ماتم کریں ۔ہم اپنے ہاتھوں خود قتل ہوئے ہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔