الوؤں کی طرح جاگ رہے تھے، انسان جتنا بھی مضبوط ہو نیند کے آگے ہار ہی جاتا ہے،ہم بھی ہارنے لگے تھے،جس کو جہاں جگہ ملی نیند کے گلے لگ گیا

 الوؤں کی طرح جاگ رہے تھے، انسان جتنا بھی مضبوط ہو نیند کے آگے ہار ہی جاتا ...
 الوؤں کی طرح جاگ رہے تھے، انسان جتنا بھی مضبوط ہو نیند کے آگے ہار ہی جاتا ہے،ہم بھی ہارنے لگے تھے،جس کو جہاں جگہ ملی نیند کے گلے لگ گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:108
  گہری ہو تی رات کے ساتھ سردی بڑھ رہی تھی جتنا بھی خود کو ٹھنڈی ہوا سے بچانے کی کوشش کرتے دروازے کے نیچے سے آتی یخ ہوا کا ہمارے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ ہم لطیفے سناتے گپیں ہانکتے رہے۔ ریل چلتی رہی۔ ریل میں ڈائنگ کار سے بیرے مسافروں سے رات کے کھانے کے آ ڈر لے رہے تھے۔ مرغی کا شوربہ والا سالن، 2روٹیاں، پانی کی بوتل اور کسٹرڈ کی پیالی۔ یہ تھا فی کس رات کے ڈنر کا منیو۔ ان کو آتا جاتادیکھ کر ہماری بھی بھوک چمک اٹھی تھی۔ سبھی لڑکوں نے اپنی ماؤں کے ہاتھ کے بنے کھانے کے ٹفن کھولے اور نوع نوع کے کھانوں سے ریل کے ڈبے کو مہکا دیا۔ ریاض میر اور اکبر ان کھانوں کو ساہی وال سٹیشن سے گرم کرلائے تھے۔کئی کورسز پر مشتمل اس ڈنر سے فارغ ہوئے۔ اللہ کا شکر ادا کیا تو کراچی ایکسپریس ملتان سٹیشن میں داخل ہو رہی تھی جہاں پندرہ منٹ کا سٹاپ تھا۔ ملتان سے روانہ ہوئے تو ریل کے مسافروں پر نیند اترنے لگی تھی۔ بس ہم تھے کہ الوؤں کی طرح جاگ رہے تھے۔ کہتے ہیں انسان جتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو رات کے آخری پہر نیند کے آگے ہار ہی جاتا ہے۔ ہم بھی ہارنے لگے تھے۔ جس کو جہاں جگہ ملی نیند کے گلے لگ گیا۔ جاگے تو ریل کی رفتار کم ہوچکی تھی۔ یہ کسی سٹیشن کی آمد کا اشارہ تھا۔ روہڑی پر ٹکٹ چیکر نے پھر آنا تھا اور ریل بھی روہڑی ہی پہنچی تھی۔کہیں سے ذھن میں خیال آیا کہ ہمیں روہڑی ریل سے اتر جانا چاہیے کہ پکڑے گئے تو جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ گھر سے میں ہزار روپے لے کر چلا تھا۔  باقیوں کے پاس بھی اتنے یا اس سے بھی کم پیسے تھے۔ خیر بہادروں نے ریل کو روہڑی اسٹیشن میں خدا حافظ کہا اور بس میں بیٹھ کر سکھر آن پہنچے۔ میرا دوست دریائے سندھ ان دونوں شہرو ں کو جدا کرتا ہے۔یہاں سے ناشتہ کیا اور بس سے کراچی روانہ ہو گئے۔جو سات آٹھ گھنٹے کا سفر تھا۔
تیری گاگر سے پانی؛
سفر شروع کئے کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ ندیم نے اپنے سامان سے ڈفلی نکالی اور لگا بجانے۔ ساتھ ہی تالیاں بھی بجنے لگیں اور ہم لگے ”عالم گیر“(اس دور کے نامور گلوکار تھے) کا گایا گانا گانے لگے؛”تیری گاگر سے پانی پیا تھا پیاسا تھا میں یاد کرو۔“ بس کے مسافر زیادہ تر سندھی تھے جبکہ کچھ سندھی خواتین بھی نیم پردہ پوشی کی حالت میں سوار تھیں۔ہمیں یہ بے سرے گانے گاتے مشکل سے آدھ گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ بس کنڈیکٹر اور مسافروں نے ہمارے بے سرے گانوں سے تنگ آ کر خاموش رہنے کا حکم جاری کر دیا۔ بس میں اب ایسی خاموشی تھی کہ صرف انجن کی ہی آواز سنائی دے رہی تھی اور وہ بھی بے سری ہی تھی۔ایک تکلیف دہ، تھکا دینے والے سفر کے بعد کراچی پہنچے تو رات کے9بجے تھے۔ اجنبی شہر میں پوچھتے پچھاتے صدف معراج بٹ(صدف گوالمنڈی لاہور کا رہنے والا اور ایف سی کالج میں اکبر کا ہم جماعت تھا۔ شاندار انسان، ہنس مکھ اورخالصتاً کشمیری۔ اس کے چچا ریاض بٹ لاہور کے ڈپٹی مئیر بھی رہے۔ بی اے کرکے یہ کشمیری کوٹے میں نائب تحصیلدار بھرتی ہوا۔خالصتاً لاہوری زبان جس میں ”ٹ“ زیادہ بولی جاتی ہے بولتا تھا۔تحصیل دار پروموٹ ہوا۔ کبھی بسنت پر اس کے گھر جاتے تو اس کے والد معراج دین بٹ صاحب ہمیں دیکھتے ہی ملازم کو آ واز لگاتے؛”او فیقے! صدف دے یار آئے ہن، پہلوان تو دو لسیاں پیرے پوا کے لیاے۔“ واہ کیا لوگ تھے۔ سادہ مگر پر خلوص۔صدف جوانی میں ہی انتقال کر گیا تھا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔) کے فلیٹ فیڈرل بی ایریا پہنچے تورات کے دس سے زیادہ کا وقت تھا۔اس کا فلیٹ سب سے اوپری منزل پر تھا۔جب تک ہم نیچے سے اوپر پہنچتے سڑک کے دوسری جانب بنے فلیٹس کی تیسری منزل پر باتھ روم میں ایک جوڑا بڑی دل جمی سے بوس و کنار میں مصروف تھا۔ انہیں یوں مصروف دیکھ کر کسی کا دل بھی صدف کے فلیٹ میں جانے کو نہ تھا۔ وہ تو بھلا ہو اس جوڑے کا کہ جلد ہی تھک گئے اور ہمیں اوپر جانے کا موقع مل گیا۔نیند نے ہمیں یوں جکڑا جیسے اس کے بعد آ نی ہی نہیں۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -