قادیانیت ایک مطالعہ!  (3)

 قادیانیت ایک مطالعہ!  (3)
 قادیانیت ایک مطالعہ!  (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جن کے عقیدہ کی رو سے اللہ کے خاص،بلکہ خاص الخاص بندے بھی اپنی فطرت میں عام ہوا کرتے ہیں۔ بابائے قادیان کی رعائت سے کئی غورطلب سوال اٹھائے جاسکتے ہیں،جو اب تک عموماًنہیں اٹھائے گئے کیا خدائے وحدہ لاشریک پر اعتماد رکھنے والا کوئی شخص،اس کی جانب سے کسی ایسے منصب ومقام پر فائز ہونے کا دعویدار ہو سکتا ہے،جو اسے عطاہی نہیں کیا گیا،بلکہ خداوندکریم کی طرف سے  اس امر و مرتبہ کا دروازہ ہی بند کیا جا چکا ہو؟نہیں آخری قطعی جواب یہ ہے،ہر گز نہیں!! اس نوعیت کا دعویٰ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کا درحقیقت کوئی عقیدہ ہی نہ ہو، ماحول کے جبریا کسی دنیوی غرض سے ایسے ویسے کئی آدمیوں کو بھی مذہب کی چادر سے سے لپٹے دیکھا گیا ہے کہ جو اپنی فطرت میں مکمل لامذہب ہوا کرتے ہیں بے دینی ہی جن کا دین ٹھہرا،چونکہ وہ بزدل ہوتے ہیں،اور معاشرتی دباؤ کے سبب مذہبی چولا اتار پھینک نہیں سکتے،یا پھر ان کی مادی خواہشات کی تکمیل و تسکین  کا سامان مذہب ہی سے جڑ ا ہوتا ہے!بائیں ہمہ ان کا اقرار بھی بربنائے روزگار ہم معنی انکار ہوتا ہے،وابستگی بھی ناوابستگی پر دلالت!ماننے میں بھی نہ ماننے کا ذائقہ! شیطانی وسوسوں اور مادی ہتھکنڈوں سے قطع نظر،جھوٹے مدعیان نبوت و امامت کے ذہنی رجحان ومیلان کا پیچ در پیچ مطالعہ و تجزیہ بھی تحقیقی زاویوں میں نہانت مفید ومعان ہے نسلی توارث،معاشی نوعیت،اور خاندان کی جدید وقدیم ومعاشرتی حیثیت بھی اس باب میں خاص رکھتی ہے، ہر علت کا ایک اپنا معول ہے،بعض افراد کی حد سے بڑھی ہوئی نرگسیت اور احساس کمتری،برتری کے گوشوں میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔آدمی جتنا چھوٹا ہو،دعویٰ اتنا بڑا مرزا صاحب کو،حالات و واقعات کی گواہی یہ ہے، نفسیاتی امراض وطبی عوارض لاحق تھے۔ اس صورت میں ان کا ذہنی و دماغی تجزیہ درکارتھا،لیکن بیماری کی جانچ پرکھ اور علاج معالجہ کے بجائے بیچارہ مریض زیربحث آیا، قرائن کی روسے یہ کسی ماہر نفسیات کا کیس تھا،لیکن اس کے برخلاف ہمیں یہ معاملہ سنجیدہ مباحث میں الجھا ہوا ملتا ہے۔اے کاش!کسی نے ان کے شعور، لاشعور اور تخت الشعورمیں میں جھانک لیا ہوتا،تحلیل نفسی کوبروئے کا رلے  آیا جاتا،کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کوئی دلچسپ ذ  ہنی مریض فرائڈ کے ہاتھ لگ جاتا تو نفسی پہلوؤں کے اعتبار سے یہ  ایک معرکے کی چیز ہوتی،کئی نئے مطالعاتی و تجزیاتی باب وا ہو جاتے! طبی تاریخ میں اسے ایک مسلمہ حقیقت  کے طور پر جانا اور مانا گیا ہے کہ توام بچوں میں جو بعد میں جنم لے،اسے لازماً خشکی کی شکایت پیدا ہو جایا کرتی ہے، خشک پن دراصل ام الامراض ہے، مزاج متواتر خشک رہے تو دماغ گویا چل جاتا ہے،دماغی مریض ہوا میں اڑتا اور عجیب انداز سے سوچتا ہے۔کئی خواب،حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آتے،اور اپنے ساتھ کہیں دور خوابوں کے اجنبی جزیرہ میں لے جاتے ہیں مرض دائمی ہوتو اوہام، الہام بنا کرتے ہیں مرزا غلام احمد عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجی مبلغوں کے ردعمل کی جذباتی پیداوار ہیں وہ زیادہ سے زیادہ مختلف النوع کچی پکی معلومات کے رسیا تھے،حالانکہ علم روحانی اعتبار سے زیادہ معلومات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک نور ہے،جو اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ قلوب میں ڈال دیتا ہے،بالفاظ دیگر علم،نظام فکر و فکری نظام کی کائنات وسوغات ٹھہری، اس جہت سے مرزا صاحب کا کوئی قدہی نہیں،محض ایک بونا  آدمی! عصری تقاضوں اور انسانی و روحانی مسائل کا شعور انہیں چھو کر بھی نہیں گزارا  تھا نظریہ و فلسفہ تو ایک بڑی بات ہے،انہیں زبان و بیان ہی کا ملکہ حاصل نہیں ہوا۔ان کی زبانی دانی و عربی صلاحیت کی قلعی ”حرف مجرمانہ“ سے کھل جاتی ہے،ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے موصوف کو علمی اعتبار سے عیاں نہیں،عریاں کرکے رکھ دیا ہوا ہے حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒ ”سیف چشتیائی“ میں ان کی غلطی ہائے صرف ونحو کی ایک طویل فہرست رقم فرما گئے ہیں،اگر کوئی انہیں فکری ونظری انتشار کا شاہکار قرار دیدے تو بھی کچھ ناروا  اور بے جانہ ہو گا،ان کے یکسر متضاد موقف اور دعووں سے متعلق لاتعداد حوالے پروفیسر محمدالیاس برنی نے ”قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ“ میں گنوادیئے ہیں،احمدیت کا شجراپنی فطرت ہی میں بے ثمر تھا،اعلیٰ اثرات ونتائج سے مطلقاًعاری،فکرونظر کے زاویوں میں تضاد ہی تضاد!جماعت احمدیہ کے حوالہ سے یہ بات عموماً لوگ نہیں جان پائے کہ اس کے بانی نے صرف مسیح موعود،مہدی معہود اور ظلی و بروزی نبوت ہی کا اعلان نہیں کیا،اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھ کر وہ مستقل بالذات نبی بن بیٹھے تھے،بلکہ فی الواقع خود ہی کو حقیقی خاتم النبین جتلایا اور بتلایابلاواسطہ نہیں،بالواسطہ مرزاصاحب نے کہنے کو کہا تویہ کہ میں کوئی مستقل نبی یارسول ہر گز نہیں،محض رسول کریم ؐکا جلوہ،سایہ اور عکس ہوں،ظل وبروز!بقول ان کے،عکس اگرچہ اصل وجو د نہیں ہوتا،مگر یہ اصل وجود سے جدابھی تونہیں ہوتا، امیر قادیان اپنی ”شان“کے بیان میں فوراً  ہمیشہ عشق رسول ؐ  کی یاد اور ذات وصفات میں اس طرح گم ہوں کہ دوئی باقی نہیں رہ گئی ہوئی وہ کہتے ہیں کہ میں فنافی الرسول کے اس درجہ ومرتبہ اور مقام و منزل پر فائز ہوچکا ہوں کہ جہاں تصور غیریت بھی محال ہے۔……  (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -