گمنام گاؤں کا آخری مزار

   گمنام گاؤں کا آخری مزار
   گمنام گاؤں کا آخری مزار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 رؤف کلاسرا سے میری صرف ایک مختصر ملاقات  2019ء میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی مسجد میں ہوئی تھی، جہاں وہ رحمت علی رازی مرحوم کی دعا کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پچھلے سال ”بجلی مہنگی کیسے ہوئی“ پر انہوں نے تواتر سے کوئی بیس کے قریب کالم لکھے اور میں نے وہ تمام کالم پڑھے اس طرح ان کی تحریر سے ایک وابستگی قائم ہو گئی۔لاہور پاک ٹی ہاؤس کے سامنے اتوار کے روز کتابوں کے سٹال لگتے ہیں اور میں کبھی کبھی ضرورت کی کتب وہاں سے خریدنے جاتا ہوں، اس بار جب میں کتابیں لے رہا تھا تو  وہاں پر ”گمنام  گاؤں کا آخری مزار“ کا فلیپ نظر آیا۔جہاں پر لکھا تھا کہ اگر آپ بڑے لوگوں کے بارے میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے کام کی  نہیں،اس سے پہلے میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب  ”مولو مصلی“ پڑھ چکا تھا۔اس وجہ سے بھی عام آدمیوں کی کہانی سے دلچسپی تھی۔یہ کتاب عام انسانوں کی دکھ بھری کہانیوں سے بھر پور ہے،منو بھائی کے ٹی وی کا گم ہونا اور ان  کے لئے رؤف کلاسرا کی والدہ کا اپنی بکریاں بیچ کر پیسے بھیجنے کا ذکر اور بعد میں جب کلاسرا صاحب کی  منو بھائی سے ملاقات ہوئی تو ان کا مشہور زمانہ فقرہ کہ ”مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں“۔منو بھائی کا لگایا ہوا سندس فاؤنڈیشن کا پودا اب تناور درخت بن چکا ہے۔1998ء میں قائم ہونے والی اس فاؤنڈیشن کے ذریعے اب تک لاکھوں مریضوں کا علاج ہو چکاہے۔

رؤف کلاسرا صاحب نے کتب بینی میں کمی  کی نشاندہی کی ہے اور اس کتاب میں ان سیاستدانوں کے نام بھی لکھے ہیں،جو اکثر اسلام آباد میں واقع ایک بڑے بک ہاؤس پر جاتے ہیں اور کتب خریدتے اور پڑھتے ہیں،کئی لوگوں کا کتابیں پڑھنے کا دِل کرتا ہے لیکن سوشل میڈیا، واٹس ایپ، فیس بُک،انسٹا گرام، ٹک ٹاک  اور یوٹیوب کی مختصر اور چٹ پٹی خبریں اور کلپس سارا وقت لے جاتے ہیں، چونکہ ہمارا بچپن بھی گاؤں میں ہی گزرا ہے اس لئے رؤف صاحب کے دور دراز کے گاؤں کے مسائل اور مشکلات کو سمجھنے میں آسانی رہی اور میں بھی قریباً  پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر سکول اور 20 کلومیٹرکے فاصلے پرکالج آیا جایا کرتا تھا۔اس کتاب کی اشاعت میں جہلم بک کارنر کی پرنٹنگ اور فونٹ کتاب پڑھنے میں  معاون ثابت ہوتے ہیں۔

یہ عام مشاہدہ ہے آپ جب کسی مصنف کی  اچھی تحریر یا کتاب پڑھتے ہیں تو آپ آہستہ آہستہ اس کی محبت میں گرفتار ہوتے جاتے ہیں۔اپنے گاؤں، گاؤں کے لوگوں، اساتذہ، بہن بھائیوں، وسیب کے لوگوں اور سرائیکی بیلٹ سے ان کی محبت تمام مضامین میں جا بجا ملتی ہے۔رؤف صاحب اپنی تحاریر میں تاریخ،ادب، کتب اور  مختلف فلموں سے تڑکا بھی لگاتے ہیں۔جس سے ان کی تحریر کی مٹھاس بڑھ جاتی ہے۔ویسے بھی سرائیکی زبان  میٹھی زبان ہے اور کلاسرا صاحب کے مطابق ”سرائیکی زبان کے  بارے کہا جاتا ہے اس کی اصل مٹھاس محسوس کرنی ہو تو کسی لڑکی سے سنو“۔میری ذاتی رائے ہے اگر آپ کسی کتاب کے 50 صفحات  پہلے دن پڑھ لیتے ہیں تو 90 فیصد چانسز ہیں کہ آپ وہ کتاب پوری پڑھیں گے۔360 صفحات پر مشتمل اس کتاب پر یہ فارمولا بالکل فٹ بیٹھا۔اس کتاب کی پہلی کہانی  جیسل کلاسرا کے کمہار چچا میرو کے نام ہے۔ رؤف صاحب کا دعوی تھا کہ یہ کہانی آپ کو کئی دنوں تک چین سے سونے نہیں دیگی۔ ہمارے کیس میں یہ دعوی سچ ثابت ہوا، کیونکہ میں چچا میرو اور ان کی فیملی کو بلا وجہ تنگ کرنے کے واقعہ کو اپنے گاؤں کے کئی لوگوں سے ملا  سکتا ہوں۔غربت کی ویسے بھی ایک ہی شکل ہوتی ہے،جبکہ امارت کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف اور خوشحال ہوتی ہیں، دنیا بھرکی غربت چچا میرو کے چہرے پر جھلکتی تھی،چچا خدا بخش قصائی نے  بیٹے کے  علاج کے لئے رقم بھی دی لیکن پھر بھی  وہ جانبر نہ ہو سکا۔مشہور سیاستدان ڈاکٹر شیر افگن کی وفات پر انہیں بہت افسوس ہوا، اسی طرح اپنے والد، والدہ اور بھائی نعیم کی وفات کا ذکر اکثر اپنے کالموں میں کرتے ہیں۔ چالیس سال کے  بعد مختلف دکھ آنا شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ والد، بھائی یا قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی وفات۔ان کے مطابق وچھوڑے کی شدت ختم نہیں ہوتی،ہاں کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ شاکر شجاع آبادی کا ذکر اور سرائیکی شاعری بھی ان کی تحاریر میں نمایاں ہے۔

کلاسرا صاحب اندرون اور بیرون ملک مختلف جگہوں کی سیر کرتے وقت بھی اپنے علاقے کے راستوں، کھانوں اور لوگوں کو نہیں بھولتے،اپنے محدود وسائل کے باوجود وہ لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ چاہے یہ کوشش مالی امداد، ہسپتال میں علاج میں مدد یا نوکری دلوانے کی شکل میں ہو۔

لیہ کے ماسٹر اسلم کی جوان بیٹی کی ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے موت  پر رؤف صاحب سمیت ہر پڑھنے والے کو ضرور افسوس ہوتا ہے،اسی طرح ڈیرہ غازی خان کے مزدور چچا نذر کی کہانی بھی دل پر اثر کرتی ہے، ان کا پسندیدہ پاکستانی ایکٹر مصطفی قریشی ہے، جس کی فلمیں وہ بچپن میں وی سی آرپر دیکھا کرتے تھے،اسی طرح ملتان سے محبت بھی رؤف صاحب کی تحاریر سے عیاں ہے۔لورالائی، بلوچستان کے ایک ہندو گھرانے کی دکھی داستان بھی انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ انسانی بربریت سے نفرت کرے اور انسان کے اندر چھپی انسانیت سے محبت کرے۔ مجھے پہلے سرائیکی بیلٹ،فورٹ منرو،ملتان  اور ڈیرہ غازیخان کے علاقوں، لوگوں، کھانوں اور رسومات کا زیادہ پتہ نہیں تھا،لیکن بلوچستان میں تین سال ملازمت کے دوران اس علاقے سے آتے جاتے یہاں  کی تاریخ اور مکینوں کے بارے میں جاننے کو بہت کچھ ملا اور رؤف کلاسرا صاحب کی کتاب پڑھنے میں بہت آسانی ہوئی۔ 60 سے زائد مضامین کے حاصل مطالعہ کو ایک مختصر کالم میں قلمبند کرنا مشکل کام ہے۔کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -