”بانجھ کتے“
کراچی پاکستان کا پہلا میٹروپولیٹن سٹی، روشنیوں کا شہر، ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ، یہاں کے رہنے والوں کے بقول پورے ملک سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر، مگر اس شہر کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ کتوں کے غول کے غول شہر میں دندناتے پھرتے ہیں اور جہاں چاہے جب چاہے جسے چاہے کاٹ کھاتے ہیں۔ ان کتوں نے سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانا مشکل کردیا ہے، میاں بیوی گھر سے نکلتے ہیں اور پھر کتوں کے غول سے جان بچانے کیلئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اتکی لاشیں ہی انکے گھر واپس پہنچتی ہیں۔ معصوم بچے باہر سڑک پر اکیلے نہیں نکل سکتے کہ یہ کتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے یہ بتانے کیلئے بہت بڑا دل گردہ چاہئے۔ یہ ہے ہمارا میٹروپولیٹن سٹی، خوبصورت شہر جو اپنی بدنمائیوں کے ساتھ کنکریٹ کے جنگل کا روپ دھار چکا ہے کیونکہ یہ کتے، چیتے، بھیڑئیے، شیر، گیدڑ، تیندوے تو جنگل میں انسان کو کاٹتے اور کھاتے ہیں، شہروں میں تو ایسا نہیں ہوا کرتا۔ کہا جاتا ہے کہ ہم ایک جدید، ترقی یافتہ ملک بننے جا رہے ہیں لیکن لگتا ہے ہم ایک جنگل بننے جا رہے ہیں۔
کراچی کو جنگل کہنا اچھا نہیں لگتا کیونکہ یہاں کوئی شیر، بھیڑیا، چیتا، بھالو ایسا جانور نہیں پایا جاتا جس کو دیکھتے ہی لوگ ڈر جائیں مگر یہاں ایک ایسا جانور پایا جاتا ہے جو کراچی کے شہریوں کیلئے ان وحشی جانوروں سے کم خطرناک نہیں ہے اور یہ جانور ہے آوارہ کتے، جن کی تعداد اب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ حکومتوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں؟ ایک اندازے کے مطابق صرف سندھ میں آوارہ کتوں کی تعداد 28 سے 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے،ان آوارہ کتوں سے انسانوں کو بچانا اسلئے ضروری ہے کہ اس وقت کتے کے کاٹے سے پیدا ہونے والا مرض ”ریبیز“ دنیا کی 10 خطرناک ترین بیماریوں میں سے ہے۔ پاکستان میں صرف ریبیز کی وجہ سے یعنی کتے کے کاٹے سے پیدا ہونے والی بیماری کی وجہ سے ہر سال 5 سے 6 ہزار افراد اگلے جہان سدھار جاتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ریبیز سے ایک سال میں 56 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا میں کتوں کو پالا جاتا ہے لیکن اس کیلئے ان کتوں کو تربیت دی جاتی اور انکی ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں چونکہ کتے کو ایک نجس جانور سمجھا جاتا ہے لہٰذا گھروں میں بہت کم کتے پالے جاتے ہیں، ہاں البتہ چوروں، ڈاکوؤں سے بچنے کیلئے ضرور کچھ غیرملکی نسل کے انسان کو پھاڑ کھانے والے کتے بڑی بڑی کوٹھیوں کی باغیچوں میں رات کو کھلے چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ عام آدمی جس کا گھر ہی 3 یا 5 مرلے کا ہے، اسکے پاس تو نہ کتا رکھنے کی جگہ ہے نہ وہ اسکا خرچہ برداشت کرسکتا ہے کیونکہ آج کل تو اسے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا مشکل ہے، میاں شہبازشریف پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ بنے تو لاہور کے باغ جناح میں آوارہ کتوں کی ایک ٹولی نے سیر کیلئے آنے والی ایک خوبصورت سی معصوم بچی کو پھاڑ کھایا۔ یہ واقعہ جب اخبارات میں چھپا تو کہرام مچ گیا اور وزیراعلیٰ نے ”کتا مار مہم“ کا اعلان کیا، کتا مار کر اسکی دُم لانے والے کو 50 روپے میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور کے دفتر سے ملا کرتے تھے۔ آوارہ کتے ایک تو پھاڑ کھاتے ہیں، دوسرا انکے کاٹنے سے ”ریبیز“ ہوجاتی ہے۔ ریبیز کا ایک مریض دیکھنے کا اتفاق ہوا، یہ 1995ء کا واقعہ ہے، میں اس وقت نوائے وقت کا کرائم رپورٹر تھا، میوہسپتال ایمرجنسی وارڈ پہنچا تو ایک ماں اپنے بچے کو گود میں چھپائے بیٹھی نظر آئی جس کے بچے کو داخل نہیں کیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹروں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ اس بچے کو ”ریبیز“ ہے اور بچنا مشکل ہے۔ اس بچے کو داتا دربار کے عقب میں واقع وبائی امراض کے ہسپتال بھیج دیا گیا، تجسس مجھے اس ہسپتال لے گیا۔ سہ پہر کو وہاں پہنچا تو ماں اپنی بچے کو سینے سے لگائے ایک وارڈ میں اکیلی بیٹھی تھی، پتہ چلا کہ وارڈ میں داخل مریض یہ سنتے ہی کہ بچے کو ریبیز ہے بھاگ گئے کہ کہیں یہ بچہ انہیں نہ کاٹ لے، لیکن بچے کو چھاتی سے لگائے بیٹھی ماں کو ایسا کوئی خوف نہیں تھا۔ ڈاکٹروں سے پوچھا انہوں نے کہا کہ اس بچے کا صبح تک بچنا مشکل ہے۔ دفتر آیا، خبر تیار کی اور سرخی کیلئے تجویز کیا کہ کیا یہ بچہ آج صبح تک زندہ رہ پائیگا؟ وہی ہوا وہ بچہ اگلے دن کا سورج نہ دیکھ سکا اور وہ ماں اپنے بچے کی لاش لیکر شیخوپورہ اپنے گاؤں واپس چلی گئی۔ نظامی صاحب کے حکم پر میں فوٹوگرافر گل نواز کے ساتھ اس گاؤں پہنچا تو ہمارے پہنچنے سے پہلے بچے کی تدفین ہو چکی تھی، لیکن جو منظر دیکھنے کا تھا کہ وہاں اسی طرح آوارہ کتے گاؤں میں پھر رہے تھے، بچے بھی وہیں کوڑے کے ڈھیر کے پاس کھیل رہے تھے جہاں کتے اپنا کھانا تلاش کررہے تھے، شاید انتظامیہ کو کسی مزید لاش کی ”ضرورت“ تھی۔
ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو ریبیز سے بچانے کیلئے کتوں کو ویکسی نیشن دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ یہ کتے انسان کو کاٹیں تو انکو ریبیز نہ ہو، ان سے نجات کیلئے بندوق اور زہر استعمال ہوتے رہے مگر پھر ایسا ہوا کہ 2016ء میں کراچی کے ضلع جنوبی میں ”کتا مار مہم“ میں 800 کتے مارے گئے جن کی لاشیں دیکھ کر کچھ لوگوں کے دلوں میں ان آوارہ کتوں کی محبت جاگ اٹھی۔ وہ شہر کہ جہاں بلاناغہ سرعام چند روپوں کیلئے، ایک موٹر سائیکل کیلئے، ایک موبائل کیلئے کسی بھی شریف آدمی کو قتل کردیا جاتا ہے، وہاں کتوں کو بچانے کیلئے آواز اٹھی۔ کراچی کے ایک صحافی جناب کمال صدیقی نے اپنے وکیل اسد افتخار کے ذریعے سندھ ہائیکورٹ میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ کیخلاف رٹ دائر کردی کہ انہیں کتوں کو مارنے سے روکا جائے کیونکہ کتوں کو جس وحشیانہ طریقے سے مارا جا رہا ہے اس سے انہیں ذہنی صدمہ پہنچا ہے۔ اینیمل ویلفئیر سوسائٹی نے بھی 17000 دستخطوں سے کتوں کا قتل روک کر انہیں بانجھ بنانے کی رٹ دائر کی مگر افسوس چند درجن افراد نے دستخط کرکے ”ڈاکوؤں کو بانجھ“ بنانے کی رٹ دائر نہیں کی۔ اس اہم رٹ کے بعد سندھ حکومت نے ایک حل نکالا کہ کتوں کی ویکسی نیشن کردی جائے اور انہیں بانجھ بنا دیا جائے۔ پھر ایسا ہی ہوا اپریل 2020ء میں 85 کروڑ روپے سے ”کتوں کی زندگیاں“ بچانے کے مہم شروع ہوئی مگر ”صرف“ 11 کروڑ ہی ”خرچ“ کئے جاسکے۔ حکومت سندھ کی دیکھا دیکھی پنجاب والوں کے دل میں بھی کتوں کا درد جاگ اٹھا۔ سرائیکی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں پنجاب میں ڈرگ پاپولیشن کنٹرول پالیسی بنائی گئی، ساڑھے 7 کروڑ روپے ”خرچ کیلئے“ رکھ لئے گئے، مہم کا ٹارگٹ 2 لاکھ 30 ہزار کتوں کی ”نس بندی“ تھا لیکن ”بدقسمتی“ سے عمل نہیں ہو سکا اور دو سال بعد جب عثمان بزدار صاحب رخصت ہوئے تو یہ ڈاگ پاپولیشن کنٹرول پالیسی بھی دم توڑ گئی۔
ادھر سندھ میں پہلے پروگرام کی ناکامی کے بعد 9 کروڑ 33 لاکھ روپے سے ”نیوٹرل ڈاگ پروگرام“ 19 اضلاع میں ”لانچ“ کیا گیا ہے اور 2025ء تک کتوں کی ”نس بندی کرکے انہیں بانجھ“ بنایا جائیگا۔ ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی 24 کروڑ ہے اور دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کسی کو یہ پرواہ نہیں کہ اس قدر آبادی کا کیا بنے گا؟ اسلام آباد میں بھی ایک خاتون سارا سیرت نے ”کتا بچاؤ“ کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی ہوئی ہے۔ اللہ کرے یہ سب لوگ کامیاب ہوجائیں اور کتے بچا لئے جائیں، چاہے بانجھ کرکے بچائے جائیں۔ انسانوں کی خیر ہے انکا اللہ مالک ہے وہ جانے، انسان ہماری ذمہ داری نہیں، ہمیں تو کتے بانجھ کرنا ہیں، انسان نہ بچ سکے تو بھی ٹھیک ہے سب چلتا ہے۔