شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 76
لیاقت حسین نوشاہی بتاتے ہیں کہ حضرت پیر سید معروف حسین شاہ عارف قادری نوشاہی کی ملی و دینی خدمات کا میدان بہت وسیع ہے۔ آپ نے یک جہتی اور اتحاد کو فروغ دینے کیلئے تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کو یکجا کیا اور انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ اس مرحلہ پر بھی پیر صاحب کو مخالفین نے بہت پریشان کرنا چاہا لیکن آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی اور وہ وقت بھی آ گیا جب مخالفین نے یہ کہنا بند کر دیا کہ ہم پیر صاحب کو اہل فرنگ کے رنگ میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے رہے ہمیں یہ علم ہی نہیں ہوا کہ پیر صاحب نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے۔بریڈ فورڈ میں مساجد کی تنظیم۔Conucil for Mosques مسلمانوں کا واحد پلیٹ فارم ہے جسے پیر صاحب نے یک جہتی کا نمونہ بنایا اور اسے مذہبی منافرت سے پاک رکھنے کی بھرپور کوشش کیں۔ یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں شیعہ، سنی، دیوبندی دیگر مسالک کے مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس دور میں مسلمانوں کے سماجی اور مذہبی مسائل بھی مشترک تھے۔ لہٰذا وہ پیر صاحب کی مدد سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ سکول کا مسئلہ، حلال کھانوں، لڑکیوں کے لباس، کارخانوں میں مذہبی چھٹیوں، نماز کے اوقات میں نماز کی ادائیگی میں دشواری جیسے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مقامی آبادی مسلمانوں کی مذہبی اقدار اور مذہبی رسومات نہیں جانتی تھی۔ پیر صاحب نے مقامی آبادی اور انتظامیہ کے ساتھ مکالمہ کیا اور دوسرے مسالک کے مسلمانوں کو بھی آگے بڑھایا کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اوربرتاؤ بہترکریں اور لوگوں کو اپنے مذہبی شعائر سے آگاہ کریں۔ پیر صاحب کے مشورہ پر مشترکہ ادارہ قائم کیا گیا۔ اس کا نتیجہ بہت مثبت نکلا اور سکولوں میں بچوں کیلئے حلال کھانوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔لباس کا مسئلہ بھی حل ہوا، میں بھی اس تنظیم کا دو سال تک صدر رہا ہوں۔ مجھے بریڈ فورڈ کے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ جہاں تک ممکن ہوا ہم نے پیر صاحب کی رہنمائی میں اس کونسل کو اس کے مقاصد کے تحت چلایا۔
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 75 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں یہ دور نیشنل ازم کا زمانہ تھا۔ عرب دنیا میں امام حضرات داڑھیاں نہیں رکھتے تھے، جب پیر صاحب نے شریعت کی رو سے امام مقرر کرنا چاہے اور مسلمانوں کے عقائد درست کرنے کا کام شروع کیا تو آپ کی مخالفت اس حد تک کی گئی کہ فسادیوں نے آپ کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی۔
یہ 1970ء کی بات ہے، مخالف عقیدہ کے لوگ مٹی کا تیل لیکر آپ کے گھر تک پہنچ گئے اور گھر میں گھس گئے تھے لیکن اللہ کریم نے آپ کو شرپسندوں کے انتقام کا نشانہ نہیں بننے دیا۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو دین اسلام کے مخالف تھے، عقیدہ ان کا مسئلہ نہیں تھا۔ وہ مساجد کی تعمیر پر مخالفت کرتے تھے۔ اللہ مسبب الاسباب ہے۔ آگ لگانے والوں کو جب ناکامی ہوئی تو ان کے دلوں پر اللہ نے اپنے ولی کی ہیبت طاری کر دی۔
حیرت اس بات پر ہے کہ بعض علما نے بھی آپ کی مخالفت کی۔ 1978ء میں بریڈفورڈ کونسل سے مسجد کیلئے جگہ کی بات کی گئی اوراس سلسلہ میں جلسہ کیا گیا تو ایک گروہ نے پیر صاحب اور جمعیت کیخلاف مظاہرہ کیا۔ ان مخالفین کی پشت پناہی ان علما نے کی تھی جنہیں پیر صاحب دین اسلام کی خدمت اور ان کے بہتر مستقبل کیلئے برطانیہ لائے تھے۔پیر صاحب نے جواباً انتقام نہیں لیا بلکہ دین اسلام کی خدمت کرنے میں لگے رہے۔ پیر صاحب نے اپنے عہد کی بہت سی نامور مذہبی و روحانی شخصیات کو برطانیہ میں قدم جمانے میں مدد دی تھی۔ پیر علاؤ الدین صدیقی، پیر فیاض الحسن ایسی نامور ہستیاں یہاں آئیں تو آپ نے ان کے راستے کشادہ کر دئیے۔ ان کا لوگوں سے تعارف کراتے اور فرماتے کہ مذہبی شخصیات کے آنے سے دین کا حسن بڑھے گا اور مسلمانوں میں روشن خیالی پیدا ہو گی۔
قبلہ پیر صاحب میں استقامت کا سبب آپ کا اپنے اللہ پر کامل یقین تھا اور اسکا ایک خاص پس منظر تھا۔آپ جس خانوادہ سے جڑے ہوئے ہیں ،اسکی برکت آپ کے شامل حال رہی ہے۔ قسمت مہربان تھی کہ آپ خانوادہ غوث اعظم کے چشم و چراغ ہیں۔آپ کوسیدنوشہ گنج بخشؒ کی وارثت ملی۔آپ سید چراغ عالم شاہ ؒ جیسی ہستی کے گھر میں پیدا ہوئے اور قطب الاقطاب سید ابوالکمال برق شاہؒ ان کے برادر بزرگ تھے۔ آپ نے اس علمی، مذہبی اور روحانی خانوادے میں آنکھ کھولی جہاں صرف و نحو کی گردانوں سے لے کر علم لدنی تک قدم قدم پر بکھرا ہوا تھا۔ ماحول میں خوشبو، روشنی اور پاکیزگی رچی ہوئی تھی۔ علم و ادب کے خزانے ورثے میں ملے تھے۔آپ کواس خاندان میں اٹھایا گیا جہاں صدیوں سے مادر زاد، ولی پیدا ہوتے چلے آ رہے تھے، جہاں مائیں وضو کئے بغیر بچیوں کو دودھ نہیں پلایا کرتیں۔ یعنی وہ ثوابوں بھرے آنگن میں کھیل کھیل کر بڑے ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت پیر سید چراغ عالم شاہ سے حاصل کی اور اپنے برادرم مکرم پیر سید ابوالکمال برق شاہ نوشاہی سے سبق لینے لگے۔ والد گرامی کی وفات کے بعد پیر سید ابوالکمال برق نوشاہی نے نہ صرف ان کی علمی و روحانی تزئین کی بلکہ ان کی کفالت کے تمام معاملات بھی اپنے ذمے لے لئے اوراس گوہر نایاب کی تراش خراش کا عمل شروع کر دیا۔
28 جون 1953ء کی ایک نیکیوں سے بھری ہوئی اتوار کے دن پیر سید معروف حسین شاہ نے اپنے روحانی سفر کا آغاز کیاتھا۔ جامع مسجد نوشاہیہ رنمل شریف ضلع گجرات میں اپنے برادر اکبر پیر سید ابوالکمال برق نوشاہی کے ہاتھ پر سلسلہ نوشاہیہ کی بیعت کی اور راہ طریقت پر چل پڑے۔ اپنے شیخ کامل کی توجہ خاص کی بدولت بہت جلد طریقت کی وہ تمام منازل طے کر لیں جن کیلئے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے اور خلافت و نیابت کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔
بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک آتے آتے اس روحانی تربیت نے آپکو ذکر و فکر کے راستے پر ڈال دیا تھا جہاں ہر قدم اجالے کا قدم ہوتا ہے۔ جہاں ہر نظر سورج کی کرن ہوتی ہے اور جہاں ہر خیال کوثر و تسنیم سے دھلا ہوا ہوتا ہے۔
پیر صاحب نے پنجابی زبان میں اپنا ایک منظوم تعارف لکھا ہے جو پنجابی شاعری کی ایک اہم روایت ہے۔ منصور آفاق صاحب نے اس تعارف کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔
قلم والے، قبیلہ کی روایت ہے بیان ذات
لکھے کچھ اپنے بارے میں بھی شاعر کچھ کلام اپنا
مرا نام و نسب کیا ہے مرا شہر و پتہ کیا ہے
کہاں ہے جائے پیدائش، کہاں پر ہے مقام اپنا
مرے ماں باپ نے اپنے کرم اکرام سے یارو
حسین اپنی رکھی نسبت، رکھا معروف نام اپنا
تخلص ہے مرا عارف تعلق مصطفٰی سے ہے
میں ہوں سادات نوشاہی، رہے چرچا دوام اپنا
میں نوشہ پیر سے آتی لڑی کا ایک موتی ہوں
میں پشت ہوں، آٹھویں ان کی، انہی کا کام کام اپنا
عطا کی برق نوشاہی نے خلعت قادری مجھ کو
ولی اللہ اپنا اور جو پیرا نام اپنا
کی ہجرت شہر رنمل سے، چلے سید چراغ آئے
ہوا پھر چک سواری شہر مولا اور مقام اپنا
وہ قصبہ ڈھوک ٹھل سلطان پورا اپنا جو ہوتا تھا
جہاں پر فوج رکھتی تھی مسلسل اژدہام اپنا
جو منگلا کے بڑے قلعے سے کچھ مغرب کی جانب تھا
وہی قصبہ ہی ہوتا تھا کبھی جائے قیام اپنا
ہوا تعمیر منگلا ڈیم اور گجرات ہجرت کی
کوئی ڈوگے اٹھا کر لے گیا آب و طعام اپنا
سن اکسٹھ کے کسی برفاب دن کی ایک ساعت میں
چلا برطانیہ میں سلسلہ ہائے ایام اپنا
رہا ہوں میں بریڈ فورڈ آگے ساؤتھ فیلڈ اسکائر
اٹھارہ گھر کا نمبر ہے، یہ ڈیرہ صبح و شام اپنا
ابھی کشمیر کالونی ٹھٹھی گجراں میں جہلم میں
کیا آباد دوبارہ ہے قریہ خیال اپنا۔(جاری ہے)
شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں