سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 22
رومیلا تھاپر کا تجزیہ
سومنات کا مندر اور سلطان محمود غزنوی
”رومیلا تھاپر برصغیر کی معروف مورخ اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کی پروفیسر ہیں۔ 1931ءمیں پیدا ہونے والی رومیلا نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری 1959ءمیں لندن یونیورسٹی سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں قدیم ہندوستان کی تاریخ کی پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دیں۔ بعد ازاں وہ لندن چلی گئیں۔ اپریل 2003ءمیں انہیں ساﺅتھ لائبریری آف کانگرس کی میٹنگ کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا جس پر بھارت میں بہت زیادہ شور شرابہ ہوا۔ یہی۔ وجہ ہے کہ جب جنوری 2005ءمیں رومیلا تھاپر کو بھارتی حکومت کی جانب سے پدما بھوشان ایوارڈ دیا گیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارتی صدر عبدالکام کے نام خط میں انہوں نے لکھا کہ جب بھارتی حکومت نے کئی ماہ قبل انہیں اپنا نام ایوارڈز ملنے والوں کی فہرست میں دیکھ کر حیرانگی ہوئی ہے۔ وہ اس سے قبل 1992ءمیں بھی اس ایوارڈ کو رد کر چکی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف پروفیشنل اور تعلیمی اداروں سے ایوارڈ وصول کرنا پسند کرتی ہیں اور کسی ریاست کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ قبول نہیں کرتیں۔ان کے حقیقت پسندانہ خیالات کی وجہ سے بھارتی متعصب میڈیا انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے رومیلا تھاپر کے مشہور تحقیقاتی مقالے”سلطان محمود غزنوی اور سومنات کا مندر“کا حوالہ پیش ہے“
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محمود غزنوی کا 1026ءمیں سومنات کے مندر پر حملہ ہندو مسلم کا باعث نہیں بنا بلکہ درحقیقت پانچ مختلف تجزیوں سے حیران کن انکشافات سامنے آتے ہیں۔
محمود غزنوی کے سومنات کے مندر پر حملے اور بتوں کو تباہ کرنا پچھلے دوسو سالوں میں ہندوستان کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ کچھ مصنفین کے بقول یہ کئی ہزار سالوں سے ہندو مسلم چپقلش کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلط فہمی ہندو مسلم تعلقات کا صحیح طرح مطالعہ نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔
1026ءمیں سلطان محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر حملہ کرکے بتوں کو تباہ کر دیا۔ اس حوالے سے مختلف ذرائع سامنے آتے ہیں‘البتہ کچھ جگہ پر یہ آراءایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ کوئی بھی واقعہ صدیوں کے فاصلے سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچتا ہے‘جس کی وجہ سے اس کا بدل جانا ایک یقینی امر ہے۔ ایک مو¾رخ کے طور پر ہمیں صرف واقعہ کو دیکھنا چاہئے اور آج وہ کس طرح کا لگ رہا ہے‘اس کیلئے صدیوں کے تاریخی واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
میں آپ کے سامنے پانچ مختلف تجزیوں کے واقعات رکھنا چاہوں گا جنہوں نے محمود غزنوی کے سومنات کے مندر پر حملے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ ان میں ترکی ایران تاریخ‘ جینا کی تعلیمات‘سومنات سے ملنے والی سنسکرت تعلیمات‘برطانوی ہاو¾س آف کامن میں ہونے والا بحث مباحثہ اور واقعے کے متعلّق پایا جانے والا عام تاثر۔
ان کے بیانات سے قبل ہی سومنات کا پس منظر بیان کرنا چاہوں گی۔ مہا بھارت میں اسے پرابھاس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اگرچہ بعد میں کوئی نیا مندر نہیں بنایا گیا لیکن یہ عبادت کی جگہ تھی۔ جس طرح برصغیر کے مختلف حصوں میں یہ چیز عام تھی‘وہاں بدھ مت‘جین‘شیوا اور مسلمانوں کی آبادی تھی۔ نویں اور دسویں صدی میں شیوا مندر‘سومنات مندر کے نام سے مشہور تھا۔ چانکیہ اور سولنکی 11ویں اور 13ویں صدی میں گجرات میں حکومت کر رہے تھے۔ کاٹھیاوار میں کم طاقتور حکمران تھے‘جو چانکیہ کے مطیع و فرمانبردار تھے۔
سوراشٹر زرعی کحاظ سے زرخیز زمین تھی البتہ اس کی خوشحالی کا راز تجارت بھی تھا۔ سومنات کے ساتھ موجود بندرگاہ گجرات کی تین بڑی بندگاہوں میں سے ایک تھی۔ ان دنوں مغربی بھارت تجارتی لحاظ سے بہت امیر تھا کیونکہ اس کی بندرگاہیں عرب اور ایران سے ملتی تھیں۔ یہ تجارتی روابط کئی صدیوں پر محیط ہیں۔
عرب کے سندھ پر حملے ان کے تجارتی روابط سے کم اہم رہے۔ عرب تاجروں نے مغربی ساحل کے ساتھ قیام کیا اور مقامی لوگوں سے شادیاں بھی کیں۔ کچھ عربوں نے مقامی لوگوں کی ملازمت بھی اختیار کی۔ یہ عرب تاجر ہرمز اور غزنی میں مقیم تھے‘(جو 11ویں صدی کے بعد بھی بہت خوشحال تھے۔)تجارت کا دارومدار مغربی ایشیا سے گھوڑوں کی درآمد اور کچھ حد تک شراب‘لوہا اور ٹیکسٹائل کی آمد پر مشتمل تھا البتہ سب سے بہترین تجارت گھوڑوں کی تھی۔ ان سے حاصل ہونے والی آمدن کا معقول حصّہ مندروں پر بھی خرچ کیا جاتا تھا۔ تجارت کے علاوہ سومنات کے لوگوں کی آمدن کا اہم ذریعہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنا تھا۔ یہ ملتان کی طرح آمدن کا مقام ذریعہ تھا۔
تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ مقامی راجے آنے والے زائزین کے قافلوں پر حملے کرتے تھے اور ان کی دولت لوٹ لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ساحل کے ساتھ کئی لٹیرے گشت کرتے تھے‘جنہیں بیروج کہا جاتا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہاں تجارت پھلتی پھولتی رہی۔ گجرات میں ہندو مہاراجے اسیر ترین لوگ تھے اور وہ ہندو مندروں کیلئے بہت زیادہ امداد دیتے تھے۔ محمود غزنوی کے 1026ءمیں سومنات کے مندر پر حملے سے سو سال قبل وہاں ایک پتھر رکھا گیا تھا۔ یہ بات تمام تاجروں کیلئے بہت زیادہ دلچسپی کا باعث تھی۔ البیرونی کا کہنا ہے کہ ملتان کے ایک ماہر ریاضیات نے مختلف حساب کتاب کے بعد سومنات کے مندر پر حملے کے وقت کا تعیّن کیا ہے‘جو1025ءسے 1026ءبنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جملے کا مقامی ذرائع سے پتہ چلتا ہے۔
مشرقی اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور شاعر فرخ سیستانی نے محمود غزنوی کے بت کو توڑنے کی کہانی کو نہایت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے کیونکہ وہ اس سفر میں محمود غزنوی کے ہمراہ تھے۔ وہ لفظ سومنت کو سومنات لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن میں بیان کئے گئے کعبہ میں رکھے جانے والے تین بتوں لات‘عزیٰ اور منات کا حصّہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے عزیٰ اور لات کو توڑ دیا تھا لیکن منات کو لوگ گجرات لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے‘جہاں اس کی عبادت شروع ہو گئی تھی۔ چونکہ منات کالے رنگ کا بت تھا اس لئے سومنات کے رہنے والے لوگوں نے وہاں موجود بُت کو بھی سومنات کا نام دیدیا۔ اس سوچ کو ترکی ایرانی مکتبہءفکر کے لوگوں نے تسلیم کیا ہے لیکن دوسرے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ بہرحال اس کہانی کی اہمیّت اپنی جگہ موجود ہے کیونکہ بت کو توڑنے کی خواہش نہ صرف محمود غزنوی کی اپنی تھی بلکہ وہ حضورﷺ کے احکامات کی بھی تعمیل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اور بھی کئی مندروں پر دھاوا بولا اور وہاں موجود بتوں کو توڑا لیکن سومنات کا مندر اپنی اہمیّت اور شکل کی وجہ سے خصوصی اہمیّت اور شکل کی وجہ سے خصوصی اہمیّت اختیار کر گیا۔ ان کا تعلّق مسلمانوں کے سنی فرقے سے تھا اس لئے انہوں نے اسماعیلیوں نے حملہ کیا‘جس کے بعد 11ویں صدی میں محمود غزنوی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی مسجد بند کروا دی۔ انہوں نے یہ کام اسلام کو ایک نیا زاویہ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے ملتان اور منصورہ پر حملہ کرکے 50ہزار کفار کے ساتھ ساتھ 50ہزار منکروں کو بھی موت کے گھاٹ اتار تھا۔ سومنات کے مندر کا ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ وہ اس طرح بھارت کی سندھ اور گجرات کے راستے گھوڑوں کی تجارت کا ناطقہ بند کرنا چاہتا تھا۔اس سے وہاں عربوں کی اجارہ داری ہو جانی تھی۔ ان دنوں افغانستان کے ساتھ مغربی بھارت کے گھوڑوں کی تجارت کا بہت زیادہ چرچا تھا کیونکہ یہ ریاست غزنی کی دولت کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا اس واقعے کے متعلّق تضادات بڑھتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تصور بگڑتا چلا گیا۔ اس حوالے سے یہ شک پایا جاتا ہے کہ وہ خاتوں منات تھی یا مرد شیوا۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ اسے منات سمجھتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوکہ منات مسلمانوں کے جذبات کے قریب ترہے۔ مختلف کہانیاں ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے اس بت کی ناک اڑا دی اور اس کے پیٹ میں سے سونے تراش لئے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مشہور ترکی مو¾رخ نے اس پر حملے کر سونے کی کان قرار دیا۔ ایک روایت ہے کہ اس میں بیس آدمیوں کے برابر سوبا موجود تھا۔ ایک سونے کی چین نے دو سو افراد کو گھیرا ہوا تھا۔ مندر کی تاریخ 3000سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کو سومنات کے اس قدر قیمتی مندر بن جانے پر زیادہ حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ 14ویں صدی میں یارانی اور اسلامی کی تصانیف اس واقعہ کی مزید تفصلات پر بحث کرتی ہیں۔ یہ دونوںشاعر تھے اور ان میںسے سلطان دہلی سے منسلک تھا جبکہ دوسرا دکن کے بادشاہ کے دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوںنے محمود غزنوی کو مسلمانوں کے عظیم ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے۔
دونوں شاعر محمود غزنوی کو مسلمانوں کا ہیرو بتاتے ہیں۔ بارانی کہتے ہیں کہ ان کی تحریروں کا مقصد مسلمان حکمرانوں کو اسلام کے بنیادی حقوق و فرائض سے آگاہ کرنا ہے۔ ان کے مطابق مذہب اور بادشاہت جڑواں ہیں اس لئے حکمران کو چاہئے کہ وہ بادشاہت کے اسلامی قوانین سے آگاہی حاصل کرے کیونکہ اسے زمین پر اللہ تعالٰی کا نائب بنایا گیا ہے۔ سلطان کو اسلام اور شریعہ کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلامی ثقافت و اقدار کا تقدس کرنا چاہئے۔سلطان محمود غزنوی اس لحاظ سے ایک بہترین حکمران تھے کہ ان میں یہ دونوں خاصیات موجود تھیں۔
آسامی نے ہندوستان مسلمان حکمرانوں پر ایک مشہور نظم گائی ہے جو فارسی بادشاہوں پر فردوسی کی جانب سے لکھی جانے والی نظم سے ملتی جلتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بادشاہے عطیہءخداوندی ہے جو وہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے جس کو اس نے اسلام سے پہلے فارس کے بادشاہوں اور ہندوستان کے شہنشاہوں کو عطا کیا اور ہندوستان میں محمود غزنوی سے مسلمانوں کی حکمرانی کیلئے یہ کام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو عرب محمود غزنوی کے حصّے میں آئی۔ ان دونوں شاعروں کی آراءتاریخی حوالوں سے اہم ہیں اور اس کے تاریخی حقائق کو جاننے کیلئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
محمود غزنوی کا کروار بھی تبدیل ہوا ہے۔ شروع میں ایک حملہ آور سے وہ برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کے بانیوں میںشمار ہونے لگے۔ اگرچہ دوسرا حصّہ ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔ درحقیقت اس کا مقصد بھارت میںسلطان کے کردار کو ایک لازوال عظمت دینا تھا۔ اس سے قبل تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمان حکمرانوں کے اندر شک کا پہلو موجود تھا۔ مسلمان حکمران نہ صرف غیر مسلموں اور اقلیتوں پر حکومت کر رہے تھے بلکہ بہت بڑی تعداد میں نوزائیدہ مسلمان بھی برصغیرکے طول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے‘جو کئی ایسی سرگرمیوں میں مصروف تھے جن کا براہ راست اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کو دوہری محنت کرنا پڑی اور خطے میں انقلاب لانے کیلئے بہت زیادہ جدوجہد کرنی پڑی۔ کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ محمود غزنوی کا سومنات کے مندر پر حملہ اور علاقے میں لوگوں کے خلاف سخت پالیسی اپنانا ایجنڈے کا حصہ بننا جس کے تحت وہ یہاں کے لوگوں کی سوچ اور اقدار کو تبدیل کرنا چاہتا تھا۔
اس لیلئے ہم جینا سے ملنے والی معلومات کا جائزہ لیتے ہیں۔ گیارہویں صدی میں مالوہ، دھانا پلا دربار سے تعلق رکھنے والے ایک جینا شاعر نے محمود غزنوی کے گجرات پر حملوں کی تفصیل بیان کی ہے جس میں سومنات کے مندر پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمود غزنوی نے جینا کے ماننے والوں کی تعلیمات کو رد نہیں کیا‘جن کے مطابق سانپ کو لوگ گرو مانتے تھے اور ستاروں کے ذریعے سورج کی روشنی کو مدھم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے شیوا کے مقابلے پر جینا کی تعلیمات زیادہ مقبول ہو گئیں۔
12 ویں صدی کے شروع میں جینا سے ملنے والی ایک اور دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ چالکیہ بادشاہ راکشا ساس، دیتیاس اور اسوراس کے ہاتھوں بہت زیادہ پریشان تھا کیونکہ وہ مندروں کو تباہ کر رہے تھے۔ رشی اور برہمنوں کے خلاف مہم چلانے میں مصروف تھے۔ کچھ کے خیال میں اس میں ترک بھی شامل تھے‘لیکن زیادہ کردار مقامی راجاﺅں کا تھا۔ بادشاہ کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے سومنات کے گرد طواف کا سلسلہ شروع کیا تو اسے محسوس ہوا کہ مندر بہت پرانا اور شکستہ ہو چکا ہے۔ اس نے اس موقع پر کہا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ مقامی راج آنے والے زائرین کو لوٹتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے سومنات کے مندر کو بہتر کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اس بادشاہ نے کمبے میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی‘جو گجرات کے چانیہ اور مالوہ کے پرامراس کے درمیان جنگ کے نتیجے میں شہید ہو گئی تھی، لیکن یامارہ بادشاہ نے جینا کے ساتھ چانکیہ کی جانبسے تعمیر کئے جانے والے دوسرے پرانے مندروں کو مسمار کر دیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی مندر اقتدار کا منبع بننے لگے تو یہ حملوں کی زد میں آگئے‘قطع نظر اس بات کے کہ مذہبی معاملات میں ان کا کیا کردار رہا۔
جینا کی کچھ تعلیمات سومنات کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کرتی ہیں۔ ہمارا چندرا کے وزیر نے بادشاہ کو مجبور کیا کہ وہ مندر سے لکڑی کے تختوں کو پتھروں سے تبدیل کرا دے۔ اگر چہ مندر بہت شکستہ ہو چکا تھا لیکن مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا تھا۔ جب مندر کی دوبارہ تعمیر شروع کی گئی تو کمارا پالا اور ہما چندرا نے اس کی تعمیر میں حصّہ لیا۔ ہما چندرا کی خواہش تھی کہ وہ بادشاہ کو جینا اچاریہ کے روحانی اختیارات سے روشناس کروائیں۔ کمارا پالا اس معجزے سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے جینا مذہب اختیار کر لیا۔ محمود غزنوی سے دو صدیوں قبل بھی کئی حملہ آوروں نے ان جگہوں پر حملہ کیا لیکن سومنات کے مندر پر حملہ اور اسے تباہ کرنا ایک ایسا امتیاز ہے جو صرف محمود غزنوی کے حصّے میں آیا۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں