پنجاب اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ 

پنجاب اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب اسمبلی میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں پر نظرِثانی پنجاب 2024ء بل کثرتِ رائے سے منظورکرلیا گیا،جس کے بعد صوبائی اراکین اسمبلی، وزراء اور اسمبلی عہدیداران کی تنخواہوں میں پانچ سے دس گنا اضافہ ہو گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اب پنجاب اسمبلی کے ممبر کی تنخواہ 76ہزار روپے سے بڑھ کر چارلاکھ روپے یعنی موجودہ تنخواہ سے چارگُنا سے بھی زائد ہو گئی ہے،وزیر کی تنخواہ میں آٹھ گنا سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے، یہ ایک لاکھ سے بڑھ کر نو لاکھ 60ہزار روپے ہو گئی ہے،سپیکر کی تنخواہ تقریباً سات گنا اضافے کے بعد ایک لاکھ25ہزار سے نو لاکھ 50ہزار روپے ہو گئی ہے، ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر سات لاکھ 75ہزار روپے کر دی گئی ہے یعنی لگ بھگ ساڑھے پانچ گْنا زیادہ ہو گئی ہے، پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83ہزار روپیسے بڑھا کر چار لاکھ 51ہزار روپے،وزیراعلیٰ کے ایڈوائزر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھاکر چھ لاکھ 65ہزار روپے اور وزیراعلیٰ کے سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے کر دی گئی ہے۔عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظرِثانی پنجاب 2024ء کا بِل وزیر برائے پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیا،اپوزیشن لیڈر احمد خان بھْچر نے ہلکا سا اعتراض اُٹھایا کہ اِس حکومتی بِل پر اپوزیشن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، کیا یہ بِل پارلیمانی قوانین ایکٹ 1972ء کے مطابق ہے تو  سپیکر اسمبلی ملک محمد احمدخان نے اُن کو جواب دیا کہ یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق بالکل درست اور حکومت کا اچھا قدم ہے۔ منظوری کے بعد تنخواہوں میں اضافے کا بِل گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کو بھیجا جائے گا،اُن کے دستخط کے بعد یہ اضافہ نافذ العمل ہوجائے گا۔ 

چند روز قبل ہی وفاقی وزیراعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ کے اجلاس کے دوران وفاقی وزرا ء کی تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات کی تفصیلات فراہم کی تھیں جن کے مطابق اراکین قومی اسمبلی (ایم این اے) ایک لاکھ 56 ہزارروپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں تاہم اُن کے لیے گاڑیاں مختص نہیں کی گئیں جبکہ اُنہیں یوٹیلیٹی بلوں کے لیے صرف آٹھ ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔اُن کاکہنا تھا کہ وفاقی وزراء قریباً دو لاکھ روپے ماہانہ کماتے ہیں جبکہ 95 فیصد وزراء اپنی پوری تنخواہ نہیں لیتے، وہ 1500 سی سی گاڑی اور 400 لیٹر پیٹرول کے حقدار ہیں،اپنے بجلی اور گیس کے اخراجات خود پورے کرتے ہیں،اُنہیں کوئی اضافی سرکاری مراعات نہیں ملتیں۔ یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں ارکان قومی اسمبلی کے سفری الاؤنس میں فی کلو میٹر 15روپے کا اضافہ کیا گیا تھا یعنی اِسے 10روپے سے بڑھا کر 25 روپے فی کلومیٹر کر دیا گیا  تھا جبکہ فضائی سفر کے لیے بزنس کلاس میں اوپن ریٹرن ایئر ٹکٹوں کی تعداد 25 سے بڑھا کر 30کر دی گئی تھی۔ اُس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق رُکن قومی اسمبلی کی بنیادی تنخواہ کے ساتھ مختلف الاؤنسز ملائے جائیں تو رکن قومی اسمبلی کو ماہانہ ایک لاکھ 88 ہزار روپے مل رہے تھے۔قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کو 25 ہزار روپے کے اعزازیئے کے ساتھ ماہانہ  دولاکھ 13 ہزار ماہانہ مل رہے تھے۔ رکنِ اسمبلی سالانہ تین لاکھ روپے کے ٹریول واؤچر یا پھر 90 ہزار روپے فضائی سفر کے حوالے سے کیش الاؤ نس کے علاوہ اپنی رہائش گاہ پر ایک ٹیلی فون کی مفت سہولت لے سکتا تھا  جبکہ اُسے وفاقی حکومت کے گریڈ 22 کے افسر کے برابرمیڈیکل کی سہولیات بھی میسر تھیں۔ حساب لگایا جائے تو پنجاب اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 371 ہے،پہلے اُن کی ماہانہ تنخواہ دو کروڑ 81 لاکھ 96 ہزار روپے تھی یعنی33 کروڑ 83 لاکھ 52 ہزار روپے سالانہ جو اب بڑھ کر14کروڑ80 لاکھ روپے ماہانہ اور ایک ارب  78 کروڑ روپے سالانہ ہو جائے گی یعنی مجموعی طور پر اسمبلی ممبران کی تنخواہوں کا بجٹ پانچ گُنا سے زائد بڑھ جائے گا۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے جب اِس حوالے سے سوال کیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ اسمبلی ممبران کی تنخواہیں آخری بار شاید 2019ء میں بڑھی تھیں، اُن کے نزدیک اُن کو ملنے والی ایک لاکھ 90ہزار ماہانہ تنخواہ میں کوئی انسان ”نارمل“ طریقے سے کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں تو پھر آبادی کا بہت بڑا حصہ ”ابنارمل“ طریقے سے زندہ ہے، عام سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سالانہ اضافہ ہوتا ہے اور ٹیکس کے جمع خرچ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تنخواہ بڑھنے کی بجائے دراصل کم ہو گئی ہے۔صوبائی حکومت شائد یہ بھول گئی کہ اِس ملک میں اکثریت ہزاروں میں کماتی ہے، لاکھ تو اسے صرف خواب میں ہی دِکھتے ہیں۔

پاکستان گزشتہ ایک دہائی کے دوران تین مرتبہ سب سے کم فی کس آمدنی والا ملک قرار دیا جا چکاہے، مالی سال 2023 ء میں فی کس آمدنی 1766 سے کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ گئی تھی، ماسوائے چند فیصد افراد کے تقریباًسب ہی طبقات سے تعلق رکھنے  والے لوگوں کا معیار ِزندگی مسلسل گر رہا ہے،ان کے پاس اشیا ء خریدنے یا خدمات حاصل کرنے کی استطاعت بہت محددو ہو چکی ہے۔ رواں سال جولائی میں سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق عالمی بینک کے اندازے میں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 10 اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ چکی تھی،بین الاقومی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق یہ شرح آٹھ فیصد تھی جبکہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں 2024ء میں بیروزگاری 8.2 فیصد تھی۔پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق چار سال قبل تک بیروزگاری کی شرح  6.3 فیصد تھی جو اب آٹھ فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، پاکستان کو قرض کی ادائیگیوں کے لیے ماہانہ اربوں روپے درکار ہیں، ڈیفالٹ کے دہانے سے واپس آنے کے بعد معاشی شرح نمو رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق گزشتہ مالی سال کی دو فیصد کی شرح کے مقابلے میں رواں مالی سال  یہ تین فیصد کو چھو سکتی ہے،مہنگائی کی شرح میں بھی چند فیصد کمی کا امکان ہے اور یہ 15کے بجائے 10فیصد ہو سکتی ہے،معاشی اشاریے مثبت یا حوصلہ افزاء ضرور ہیں لیکن کوئی بھی اشاریہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ گمان لگایا جا سکے کہ پاکستان کی لاٹری نکل آئی ہے اور مکمل طور پر معاشی آسودگی حاصل ہو گئی ہے،ایسے میں پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ حیران کن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بل منظور کرتے ہوئے اسمبلی میں نعرے بازی ہوئی اور نہ ہی کاپیاں پھاڑی گئیں، کوئی ہنگامہ بھی نہیں ہوا اور کثرتِ رائے سے منظوری بھی ہو گئی، عوامی نمائندوں کے دِل میں کسی کا درد نہیں جاگا۔ یہاں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،عام استعمال کی اشیاء دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہیں، آئی ایم ایف کی ساری شرائط کا بوجھ بھی عام آدمی کے کندھوں نے اُٹھانا ہے، سردی میں گیس کی سہولت مہیا نہیں ہے، کفایت شعاری بھی عوام پر فرض ہے، تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولت بھی حاصل نہیں ہے لیکن اہل ِ اختیار اپنے آپ میں ہی مگن ہیں۔ہر حکومت اخراجات میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، کفایت شعاری کے درس دیتی ہے لیکن یہ سب محض باتیں اور دعوے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اہل ِ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ وہ ابھی عوام کی کسوٹی پر پورے نہیں اُترے ہیں، ایسے اقدامات سے عوامی رائے کوئی زیادہ موافق بھی نہیں  رہے گی لہٰذا صحیح معنوں میں عوام کے نمائندے بنیں، ان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں،ایسی بے اعتنائی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔ 

مزید :

رائے -اداریہ -