کیسے اُس نے اس اذیت کو گوارا کرلیا۔۔۔
کیسے اُس نے اس اذیت کو گوارا کرلیا
توڑ کر رشتہ عزیزوں سے کنارا کر لیا
لیجئے نہ امتحان صبرو تحمل کا مرے
جھونپڑی میں زندگانی کا گزارا کر لیا
حق محبّت کا کیا اس طرح سے ہم نے ادا
نفع بخشا ان کو اور اپنا خسارا کرلیا
شومئی تقدیر تھی کُچھ کُچھ ہماری بےبسی
ساتھ خوشیاں چھوڑ دیں غم کو سہارا کرلیا
کر لیا مجھ سے جدا ہونے کا اُس نے فیصلہ
راہ میں نے بھی بدل لی اور کنارا کرلیا
گھر گئی جب ظلمتوں میں زندگی میری نظر
میں نے خود روشن مقدر کا ستارا کرلیا
کلام :ڈاکٹر شمائلہ آفریں نظر